Shzray

سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے

وزیراعظم کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے انکشاف پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کو دور کرنے کا بہتر طریقہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا ہے جس کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے سیاسی قائدین کے مطابق ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں تاحال انہیں کسی قسم کی معلومات نہیں اس لئے بغیر کسی آگاہی کے یہ مذاکرات صرف یک طرفہ اقدام قرار دیا جائے گاواضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ترک ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ٹی ٹی پی کے مختلف گروپس کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا انکشاف کیا تھا تاہم اس
حوالے سے مذاکرات کاروں اور جن گروپس کے ساتھ مذاکرات کئے جارہے ہیں ان کے حوالے سے کوئی خدوخال سامنے نہیں آئے ہیں بعض سیاسی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر امریکہ کی جنگ مسلط کی گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کواقتصادی، معاشرتی اور معاشی طور پر تباہی کے دہانے پرلاکر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے جو عناصر جنگی جرائم میں ملوث نہیں ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کئے جاسکتے ہیں لیکن جن عناصر نے پاکستان میں حملوں کی ذمہ داری کو قبول کیا ہے ان کے ہاتھ پاکستان کے شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اس لئے ان گروہوں کے ساتھ مذاکرات وقت کا ضیاع ہوگاجبکہ بعض سیاسی جماعتوں کا موقف اس کے برعکس ہے بہرحال بڑی سیاسی جماعتوں کا رویہ اس حوالے سے معتدل ہے ماضی میں بھی اہم قسم کے ملکی معاملات پر اعلیٰ سطحی مشاورت کے نتیجے میں قومی سطح پر اتفاق رائے ہوتے رہے ہیں اس مرتبہ بھی وہی طرز عمل اور طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے حکومت اگر اس مسئلے پر پارلیمان میں اگر کھل کر بحث کو حکومت ملکی مفاد میں نہیں سمجھتی تو پارلیمانی جماعتوں اور عمائدین کا خصوصی اجلاس بلایا جائے اور ان کو رازداری میں بریفنگ دے کر اعتماد میں لیا جائے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں سیاسی مقاصدومفادات کا کوئی معاملہ نہیں بلکہ ملکی مفاد کا تقاضا ہے جس پر کامل اتفاق ہے اس لئے اس معاملے کو یکطرفہ بنا کر متنازعہ بنانے کی بجائے اتفاق رائے کی راہ نکالی جائے جو کوئی مشکل کام بھی نہیں۔
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
پشاورڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے رنگ روڈ کے شمالی حصہ کی تعمیر میں بقایا جات کی ادائیگی کے لئے صوبائی حکومت سے40 کروڑ روپے کا مطالبہ کیاگیا ہے ۔واضح رہے کہ مذکورہ حصہ کی تعمیر میں تیزی لانے کے لئے صوبائی حکومت کی پوری مشینری کام کر رہی ہے اس کے باوجود فنڈز کی فراہمی کی صورتحال تسلی بخش نہیں امر واقع یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل میں جہاں دیگر عوامل راہ کی رکاوٹ بنتے ہیں ان میں سرفہرست بروقت فنڈز کا عدم اجراء ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ رنگ روڈ کی تعمیراتی کام کے مد میں ادائیگی کے لئے رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے حکومت ایک جانب منصوبے کی جلد تکمیل کے لئے پرعزم ہے لیکن دوسری جانب بروقت وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کے ضمن میں غفلت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اس طرح سے رنگ روڈ کے اہم منصوبے کی تکمیل میں مزید تاخیر کا امکان ہے حکومت کو اس حوالے سے واضح طرز عمل اختیارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کیا جاسکے۔
پولیس کا قانونی ضرورت سے احتراز
یہ شکایت عام ہے کہپولیس ابتدائی رپورٹ درج کرنے کی بجائے ایف آئی آر کو ترجیح دیتی ہے اور درخواست گزار کو روزنامچہ درج کرواکے تسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔پولیس روزنامچہ درج کرنے کو ترجیح اس لیے دیتی ہے کہ روزنامچے کا ریکارڈنہیں ہوتا جبکہ ایف آئی آر کا ریکارڈ ہوتاہے جس سے تھانے کی حدود میں جرائم کی شرح کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ایف آئی آر کی چار کاپیاں ہوتی ہیں جس میں ایک متعلقہ پولیس اسٹیشن اپنے پاس رکھتی ہے،دوسری مدعی کو،تیسری اعلٰی افسران کو اور چوتھی مجسٹریٹ کے ذریعے سیشن جج کو پیش کی جاتی ہے۔ پولیس کاکہنا ہے کہ جرم ہونے کی صورت میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے تاہم شک کی بنیادپر پولیس کے پاس اختیار ہے کہ وہ روزنامچہ درج کرے۔پولیس ہر چیز کوشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور یہاں بھی پولیس اسی شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قانونی ضرورت اوراحکامات کو جل دے جاتی ہے پولیس حکام کے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار کی روایت سے ہر کوئی آگاہ ہے مگر پولیس کے حکام سے لیکر حکومتی ارباب اختیار تک بھی اپنی سہولت کے لئے اس طرز عمل کی خاموش حامی ہے لیت و لعل سے ہی اعلیٰ حکام کو سفارش اور دبائو کا سامنا ہوتاہے دوسری طرف وہ معاملے کو تاخیر کا شکار بنا کر اوپر سے احکامات لیتی ہے ایف آئی آر کا اگر بروقت اندراج ہو جائے تو غیر ضروری مداخلت اور سفارش اور دبائو سے بچا جاسکتا ہے جس کی پولیس خواہاں نہیں یہ تجویز بھی عبث ہو گا کہ اس کا نوٹس لیا جائے جب تک اس طرح کے چھید موجود ہوں گے عوام انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہو گی اور ملزم دندناتے پھر رہے ہوں گے۔