Flood-drugs-Afghanistan-terrorism

افغانستان سے منشیات کا سیلاب دہشت گردی سے بڑا مسلہ بن سکتاہے

حامد میر،

پاکستان اور امریکہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار کون ہے۔ پھر بھی جب وہ جھگڑ رہے ہیں ، دونوں ممالک طالبان کے قبضے کے ایک اہم نتیجے کو نظر انداز کر رہے ہیں: افغانستان کی نشہ آور تجارت میں آنے والا عروج ، جو عالمی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اگلے چند سالوں میں افغانستان سے منشیات کا سیلاب دہشت گردی سے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

20 سالہ طویل امریکی مداخلت نارکو اکانومی کو ختم کرنے میں ناکام رہی جو کہ باغیوں کے لیے فنڈنگ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ طالبان نے کبھی کسی معروف افغان منشیات فروشوں کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کے بارے میں کوئی راز نہیں بنایا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ افیون کی کاشت 2001 میں 8،000 ہیکٹر سے بڑھ کر 2020 میں 224،000 ہیکٹر تک بڑھ گئی۔

پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار کون ہے۔تاہم دونوں ممالک طالبان کے افغانستان پر قبضے کی ایک اہم وجہ کو نظر انداز کر رہے ہیں یہ افغانستان کی منشیات کی تجارت ہے جس میں اضا فہ عالمی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اگلے چند سالوں میں افغانستان سے منشیات کا سیلاب دہشت گردی سے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

20 سالہ امریکی مداخلت نارکو اکانومی کو ختم کرنے میں ناکام رہی جو کہ باغیوں کے لیے فنڈنگ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ طالبان نے کچھ معروف افغان منشیات فروشوں کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو  کبھی نہیں چھپایا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ افیون کی کاشت 2001 میں 8,000 ہیکٹر سے بڑھ کر 2020 میں 224,000ہیکٹر تک بڑھ گئی۔

صرف طالبان جنگجوہی منشیات کے کاروبار سے پیسہ کمانے والے نہیں تھے بلکہ بہت سے امریکی اتحادی ، جیسے احمد ولی کرزئی اور جنرل عبدالرشید دوستم بھی اسی تجارت میں شامل تھے۔ 2018 میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم نے  اعلان کیا کہ شمالی افغانستان جو امریکہ کے حامی شمالی اتحاد کا گڑھ تھا2001 اور 2021 کے درمیان  "ہیروئن کا مرکز”  بن گیا۔اس سال کے شروع میں طالبان کے کابل واپس آنے سے صرف چند ماہ قبل اقوام متحدہ کے حکام نے اطلاع دی کہ یہ گروپ (شمالی اتحاد) منشیات کے کاروبار سے سالانہ 400 ملین ڈالر سے زیادہ کما رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  خیبرپختونخوا حکومت کا وکلا اور کسٹمز ایجنٹس پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

آج افغانستان دنیا کا سب سے بڑا افیون پیدا کرنے والا ملک ہے۔ یہ ملک عالمی سطح پر افیون کی 80 فیصد پیداوار کا ذمہ دار ہے۔ طالبان اس ناجائز کاروبار کے ذریعے کیسے پیسہ کماتے ہیں؟ یہ افیون کی فصلوں پر ٹیکس اور پروسیسنگ اور اسمگلنگ کو تحفظ فراہم کرکے منافع کماتے ہیں۔ افیون کو ہیروئن میں تبدیل کرنے والی لیبارٹریوں سے بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ افغان افیون سے حاصل ہونے والی ہیروئن یورپ کی 95 فیصد مارکیٹ بناتی ہے۔

میں نے حال ہی میں ایک تقریب کے لیے سوئٹزرلینڈ کا دورہ کیا جہاں میں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے حاصل ہونے والے سبق کے بارے میں بات کی۔ سوال و جواب کے سیشن کے دوران میں نے زیادہ تر اطالوی اور جرمن بولنے والے سامعین میں ایک خاص پریشانی دیکھی۔ بہت سے مقامی سیاستدان اور صحافی افغانستان سے منشیات کے خطرے سے پریشان تھے۔

پاکستان واپس آنے کے بعد ، میں نے کچھ افغان اور پاکستانی حکام سے اس مسئلے کے بارے میں بات کی۔ اقوام متحدہ کے کئی عہدیداروں نے تصدیق کی کہ افغانستان ایشیا ، یورپ اور افریقہ میں صحت عامہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن رہا ہے۔ پاکستان ، ایران ، وسطی ایشیا اور ترکی دنیا کے کئی حصوں میں افغان منشیات کی اسمگلنگ کے لیے مقبول ترین راستے ہیں۔

افغانستان سے منسلک ہیروئن اٹلی ، روس اور یہاں تک کہ امریکہ میں منشیات کے کارٹیلوں میں اسمگل کی جا رہی ہے۔ افغانستان میں ڈرگ لیبز نہ صرف ہیروئن اور چرس تیار کر رہی ہیں بلکہ ایفیڈرا پلانٹ سے میتھامفیٹامین (جسے "میتھ” یا "آئس” کے نام سے جانا جاتا ہے)بنانا شروع کر دیا گیا ہے یہ میتھ پاکستان میں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے آسانی سے دستیاب ہے۔

پچھلے سال ، سری لنکا اور آسٹریلیا کے حکام نے اس مہلک مصنوعات کو پہلے سے زیادہ مقدار میں پکڑا جو اس کی پیداوار اور اسمگلنگ میں اضافہ پر دال ہے ۔اس کا بیشتر حصہ افغانستان سے جڑا ملا ہے۔ کابل پر قبضے کے بعد اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وعدہ کیا کہ نئی حکومت افغانستان میں منشیات کے کاروبار کو غیر قانونی قرار دے گی۔ انہوں نے کسانوں کو متبادل فصلوں کی فراہمی کے لیے بین الاقوامی مدد کی بھی التجا کی۔

مزید پڑھیں:  قومی اسمبلی اجلاس، مہنگی بجلی پیداوار پر توجہ دلاو نوٹس پیش کیا جائیگا

جب میں نے حال ہی میں کچھ طالبان رہنمائوں سے نارکو بزنس کے خلاف ان کے منصوبوں کے بارے میں بات کی تو انہوں نے لب سی رکھے تھے۔ کچھ نچلے درجے کے طالبان عہدیداروں نے کابل میں شراب کی دکانوں کے خلاف کارروائیوں اور گزشتہ ہفتے ہلمند میں 700 منشیات استعمال کرنے والوں کی گرفتاری کی تفصیلات شیئر کیں۔

اگست میں طالبان کے افغانستان پر قبضہ کرنے کے صرف چند ہفتے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ بھار ت میں بھی پولیس نے ٹنوں کے حساب سے منشیات پکڑ ی۔ پچھلے مہینے تقریبا تین ٹن ہیروئن ایک بھارتی بندرگاہ سے پکڑی گئی تھی۔ یہ منشیات جو ایران سے بھیجی گئی تھی افغانستان میں پیدا ہوئی تھی۔

پاکستانی وزارت نارکوٹکس کنٹرول کے اعلی ذرائع نے مجھے بتایا کہ صرف ستمبر کے مہینے میں چار ٹن سے زائد افیون ، مورفین ، ہیروئن ، چرس ، کوکین ، میتھ اور دیگر نشہ آور اشیا (626ملین ڈالر مالیتی(مختلف علاقوں سے پکڑی گئیں۔ زیادہ تر منشیات افغانستان سے متصل علاقوں سے برآمد کی گئیں۔ اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف)نے گزشتہ ماہ 99 سمگلرز اور کیریئرز کو گرفتار کیا جن میں کچھ افغانی اور نائیجیرین بھی شامل ہیں۔ اے این ایف کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان افغان منشیات کی تجارت میں سب سے آگے ہے۔ افغان منشیات کی چالیس فیصد مقدارپاکستان سے گزرنے والے راستوں کو استعمال کرتی ہے۔ 70 لاکھ پاکستانی منشیات استعمال کر رہے ہیں۔ اے این ایف کے مطابق دنیا بھر میں منشیات کی لت ایک دن میں 685 اموات کا سبب بنتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دہشت گردی سے روزانہ 49 اموات ہوتی ہیں۔

طالبان رہنما افیون کی کاشت کے خلاف کارروائی کر کے عالمی برادری سے کافی خیر سگالی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو مجھے یقین ہے کہ افغان منشیات کی تجارت دنیا کی لعنت بن سکتی ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ایک بار کہا تھا کہ یا تو افغانستان افیون کو تباہ کردے یاپھر افیون افغانستان کو تباہ کر دے گی۔ وہ اب طالبان کے تحفظ میں کابل میں مقیم ہیں۔ طالبان کو اچھی طرح سے ان کے مشورے پر توجہ دینی چاہئیے۔

بشکریہ (واشنگٹن پوسٹ)