انتقاش احتساب

سیاست کے نرتھ بھاؤ بھی نہ سمجھنے کے نہ سمجھانے کے ہیں ، جو مزاج یار میں آئے وہی سبھاؤ کہلائے ، نیب کے چیئر مین کی تقرری کے کھا تے میں درج ہے کہ یہ تقرری ناقابل توسیع ہے ، بعض عہد ے کچھ تقاضے رکھتے ہیں جیسے مجسٹریٹ کی تقرری اس کے آبائی علا قہ میں نہیں کی جا تی اسی طرح بعض عہدوں کا تقاضا ہو تا ہے کہ ان سے سبکدو ش ہونے کے بعد ایک معینہ مدت تک دوسر ی ملا زمت نہیں کی جا سکتی ایسے ہی تقاضا ؤں کی بناء پر چیئرمین نیب کے عہدے کے لئے یہ شرط عائد تھی کہ تعینا تی کی مدت کے بعد اس میں تو سیع نہیں کی جائے گی ۔ لیکن حزب اختلا ف کا انرتھ ہے کہ چیئر مین نیب کی مدت ملا زمت میں توسیع سے بات کھل گئی ہے اور یہ ثابت ہو چلا ہے کہ حزب اختلا ف کی نیب کے بارے میں دعوے تھے وہ درست ہیں ، خیر یہ تو ان کی انرتھی ہے اس پر کیا تبصرہ ہو سکتا ہے تاہم عوام بھی اتنے گئے گزرے نہیں ہیں کہ وہ کوئی ابالی بھاتی نہیں ہیں ، تاہم پاکستان میں ایسی دو تقرریاں ہوئی ہیں جو بھاتی نہیں ہیں کیو ں کہ عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ملکی مفا د میں نہیں بلکہ راج پا ٹ کے مفاد میں ہوئی ہیں ۔کہنے کو کوئی بھی کچھ کہہ سکتا ہے ، کوئی کسی کی ز بان نہیں پکڑ سکتا ، بالیاں ٹھٹھولیاںتو پڑتی رہتی ہیں ، اب یہ کسی کا کہا کہ حکومت پا کستان میں قحط الرّجا ل سمجھتی ہے کوئی درست نہیں ہے ، یہا ںتو افراط الرّجال ہے لیکن چاک وچوبندی بھی تو کوئی شے ہے ۔ احتساب میںجس پھرتی کا مظاہر ہ موصوف نے فرما یا ہے یہ ان کا ہی بس ہے ، اس سے پہلے پھرتیو ں کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ بانی نیب پر ویز مشر ف کے دور میں بھی ایسا پھرتیلا احتساب دیکھنے کو نہیں ملا ، سچ یہ ہے کہ اگر صاحب نیب کو توسیع سے نہ نو از اجا تا تو احتسابی شفافیت ڈوب جا تی ۔چونکہ قائد حزب اقتدار موجو دہ قائد حزب اختلا ف کو دودھ کا دھلا نہیں مانتے اس لئے انھو ں نے باقابل توسیع کی شرط کو قبول نہیں کیا اور اس کے لئے شفافیت کی یہ راہ نکالی کہ ایک آرڈیننس سے اس الجھن کو صاف کردیا ، یو ں عمر ان خان نے ثابت کر دیا کہ اگر نواز شریف اور آصف زرداری مردان اسارت ہیں تو وہ بھی مر د بحران ہیں وہ بحران نمٹانا بھی جا نتے ہیں ۔ آرڈی ننس کی منظوری کا قلم تو صدر مملکت عارف علوی کے ہاتھ لگا ہوا ہے،حکومت ڈھیر و ں آرڈیننس جا ری کر چکی ہے کسی کا بھی مسلم لیگ( ن) یا ان کی طرز کی کسی جماعت نے کچھ اس کا بگاڑ لیا ہے ۔حزب اختلاف ہی نہیں دیگر طبقات بھی یہ مقولہ لئے ہوئے ہیں کہ گھر سے احتساب شروع ہو نا چاہیے ، عمر ان خان اکل کھر ے محتسب ہیں انھو ں نے پنڈورا پیپر ز میں سب سے زیادہ اپنی پارٹی کے ارکان کا نام آنے پر فوری احتساب کا نہ صرف اعلا ن کیا بلکہ احتسابی عمل کی باگ دوڑ بھی اپنے ہا تھ میں لے لی تاکہ کوئی بیر ونی عنا صر اس کو کھینچ نہ سکے ، اس کو کہتے ہیں خود احتسابی ،اگر نو از شریف ہو شیا ر سیا ست دان ہو تے تو وہ بہت کچھ عمر ان خان سے سیکھ سکتے تھے ، اگروہ بھی پانا ما پیپر ز پر فوری ردبہ عمل ہو جا تے تونہ جی آئی ٹی بنتی نہ ان کو کہنا پڑا تاکہ” مجھے کیو ں نکا لا ”ابھی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو ا نہیں ہے حزب اختلا ف نے واویلا کر دیا ہے ۔احتساب کا عمل شروع ہو نے دیاجائے اس سے ہی اندازہ ہوجائے گا کہ نرتھ بھاؤ کیسا ہے ۔ترجمان مسلم لیگ( ن) مریم اورنگ زیب نے اس آرڈی ننس کوکالا قانون قرار دیدیاہے اور فرمایا ہے کہ کالے قانون کی مذمت کرتے ہیں ا س کی بھرپور مزاحمت کریںگے ، ن لیگ نے چیئر مین نیب کی تقرری سے متعلق آرڈی ننس کو چیلنچ کر نے کا فیصلہ کر لیا ، اس حوالے سے مریم اورنگ زیب نے کہا کہ قانونی ماہرین سے مشاورت جاری ہے اور سیا سی انتقام کے لئے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے قانو ن بدلا گیا ہے اس آرڈی ننس سے ملک میں افراتفری اور انتشار پھیلے گا ،آرڈی ننس میں کئی عوامل ہیں مسلم لیگ ن کو چاہیے کہ عوامی طورپر بتائے کہ وہ آرڈی ننس کے کس نقطہ کو علل گردانتی ہے ۔صدر مملکت نے جو قومی احتساب دوسرا ترمیمی آرڈی ننس2021جاری کیا ہے اس میں صدر مملکت جتنی چاہیں گے ملک میں احتساب عدالتیںقائم کریں گے ان احتساب عدالتوںکے جج حضرات کی تقرری متعلقہ چیف جسٹس ہائی کورٹ کی مشاورت سے کی جائے گی ، اور جج حضرات کی تقرری تین سال کے لئے ہو گی ۔ احتساب ایک ضرورری عمل ہے جس کے ساتھ اس بات سے قطعی اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ احتساب برائے عدل ہو نا چاہیے ، نیب قوانین کے بانی پرویز مشرف تھے بعد میں آنے والی جمہو ری حکومتوں نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ ا س کے قوانین کو انتقاش عدل میں ڈھالا جائے اس غفلت کی وجہ سے یہ خود سیا ست دانو ں کے گلے پڑ گئی ، اب اس میں ترمیم کی جا رہی ہے ، جو قابل توجہ بھی ہے کیو ں کہ ماضی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اقتدار پر ستوں نے اپنی مضبوطی کے لئے قانو ن کے ڈنڈے کو جو سہارا لیا کل وہ ہی ڈنڈا ان کے سرپر پڑتا ہو انظرآیا۔ قوانین بہبود کے لئے ہوتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں