انس حقانی محمو غزنوی کے مزار پر

طالبان راہنما انس حقانی نے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ میں نے محمود غزنوی کے مزار کا دورہ کیا ۔محمود غزنوی نے گیارہویں صدی میں سومناتھ کے مندر پر حملہ کیا تھا ۔ معروف مسلمان جنگجو اور مجاہدپر اللہ کی رحمتیں ہوں کہ جس نے غزنی میں مسلمان ریاست کی بنیاد ڈالی اور سومناتھ کا بت توڑا ۔اس کے ساتھ انس حقانی نے مزار پر اپنی تصویریں بھی شئیر کیں۔انس حقانی کے اس ٹویٹ پر بھارتی میڈیا کی تلملاہٹ لازمی تھی ۔انڈیا ٹوڈے نے یہ ٹویٹ اور تصویریں شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ طالبان نے سومناتھ کا مندر توڑنے والے کی تعریف کی۔ اس کے ساتھ بھارت کے کئی ٹی وی چینلوں نے گریہ زاری شروع کر دی کہ طالبان نے ہندوئوں کے نذدیک ایک لٹیرے اور حملہ آور کو اس مرحلے پر خراج عقیدت کیوں پیش کیا ۔کچھ عرصہ پہلے نریندر مودی کہہ چکے ہیں کہ محمود غزنوی کی سوچ والے افغانستان میں طاقت میں آچکے ہیں ۔ اسی گرما گرمی میں بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ایک تقریر کا آڈیو کلپ بھی گردش کرنے لگا جس میں انہوںنے کہا تھا کہ کابل کے دورے کے موقع پر انہوںنے افغان حکومت سے غزنی جانے کی فرمائش کی جس پر وہ خاصے حیران ہوئے کہ میں ایسی جگہ کیوں جا رہا ہوں جہاں کوئی فائیو سٹار ہوٹل بھی نہیں مگر میں نے انہیں بتایا کہ میں اس غزنی کو دیکھنا چاہتا ہوں جہاں کے ایک حکمران نے ہندوستان میں آکر بت توڑے تھے ۔واجپائی کہتے ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ غزنوی کو افغانستان میں کوئی اچھا نہیں سمجھتا ۔یوں سلطان محمود غزنوی کے زخموں کو بھارت کا ہندو ذہن اب تک تازہ رکھے ہوئے ہے ۔اس وقت طالبان کے اہم راہنما کا سلطان محمود غزنوی کے مزار پر جانا ایک گہری معنویت کا حامل ہے اور یہ طالبان کی حکومت کے خلاف صبح وشام سازشیں کرنے والے بھارت کے لئے ایک پیغام ہے ۔سومناتھ کے مندر کی تعمیر ومرمت کا کام بھارت کے پہلے وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کے حکم پر کیا گیا تھا اور یہ کام پٹیل کی موت کے بعد 1951میں مکمل ہوا تھا ۔ان دنوں نریندر مودی شری سومناتھ مندر ٹرسٹ کے سربراہ ہیں اور اکثر اس مندر میں جا کر پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ محمود غزنوی ہندوستان پر سترہ حملوں کے لئے مشہورہیں اور فتوحات کے سفر میں بہت سے مندروں میں بت توڑے تھے اور جب وہ سومناتھ کے مندر میں پہنچے تو وہاں ایک بت ہوا میں معلق تھا۔اس کو دیکھ کر محمود غزنوی کے کارواں میں شریک لوگوں کے ذہن بھی چکر ا کر رہ گئے ۔
جب محمود غزنوی نے اپنے قافلے میں شامل اہل دانش وبینش افراد کو یہ معمہ حل کرنے کو کہا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مندر کی چاروں دیواروں میں بھاری قوت کے حامل مقناطیس نصب ہیں اور جو ایک بہترین ترتیب اور فاصلے سے نصب ہیں کہ انہوںنے لوہے کے بنے بت کو ہوا میں معلق کر رکھا ہے ۔اس کی تصدیق کے لئے مندر کی ایک دیوار کو توڑنا ضروری ٹھہرا اور جب دیوار توڑی گئی تو توازن خراب ہوتے ہی بت زمین پر گر گیا ۔اس کے ساتھ پنڈتوں نے محمود غزنوں سے بت نہ توڑنے کی درخواست کی اور اس کے عوض بت سے زیادہ وزنی مال وزر دینے کی پیشکش کی ۔محمود غزنوی نے ایک تاریخی جواب دیا کہ اس طرح مجھے تاریخ بت فروش کے طور پر یاد رکھے گی میں تاریخ میں بت شکن کے طور پر زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔اس کے ساتھ ہی بت توڑا گیا تو اس کے اندر سے ہیرے جواہرات کی بھاری مقدار برآمد ہوئی ۔جب مسلم برصغیر کا انتظام وانصرام انگریز نے ہندو اکثریت کو منتقل کیا تو
بھارت کے سخت گیر اور متعصب وزیر داخلہ پٹیل نے سب سے پہلا کام سومناتھ کے مندر کی تعمیر نو کا حکم جا ری کر کے کیا ۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ غزنوی کے ہاتھوں مغلوب ہونے والی تہذیب ا ب ایک مخصوص خطے میں دوبارہ غالب آچکی ہے یا غلبے کی طرف پہلا قدم بڑھا چکی ہے ۔تہذیبوں کی اس تاریخی کھٹ پٹ میںایک ہزار سال پرانی اس کہانی کو اب بھی ایک دوسرے کو پیغام دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔پاکستان نے غزنوی اور غوری میزائل بنا کر ماضی کی کہانی کو نیا رنگ وآہنگ دیا وہیں بھارت بھی شہاب الدین غوری کا مقابلہ کرنے والے ہندو راجہ پرتھوی راج چوہان کو نہیں بھولا اور اس کے نام پر ایک میزائل بنایا گیا ہے۔اب افغانستان میں طالبان کے وزیر داخلہ نے بھی غزنوی کے مزار کا دورہ کرکے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرکے پرانی کشمکش کو پیغام رسانی کے لئے استعمال کیا ۔ نریندر مودی نے ہندو انتہا پسندی کا جو جن بوتل سے نکالا ہے وہ بھارت میں مسلمانوں کا قافیہ تو تنگ کر رہا مگراس نے بھارت کے گردوپیش میں ایک ردعمل کو جنم دیا ہے۔بھارت نے ہندو شدت پسندی کا جن بوتل سے نکال کر خسارے کا سودا کیا ہے کیونکہ یہ کئی اطراف سے مسلم تہذیب میں گھرا جزیزہ ہے ۔ایک طرف بنگلہ دیش کی کروڑوں آبادی ہے تو دوسری طرف پاکستان اور افغانستان سے وسط ایشیا اور بحیرہ ہند سے آگے عرب دنیا پر مشتمل مسلم تہذیب ہے۔کانگریس کے لوگ شاید تاریخ اور جغرافیے کے اس پہلو کا زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے تھے اسی لئے انہوںنے بھارت کے لئے نمائشی حد تک ہی سہی سیکولرازم کو پسند کیا ۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے تاریخ کے اس پہلو کو نظر انداز کیا ۔انہوںنے ہندو شاونزم کا راستہ اپنا کر اپنے گردوپیش میں مسلم تہذیب کے سوئے ہوئے شیر کو جگا دیا ہے ۔انس حقانی کا غزنوی کے مزار پر جانا اس کی ابتدا ہے۔
٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں