زکوۃ

زکواۃ: قرآن و سنت کے آئینے میں

ویب ڈیسک :زکوٰۃ ادا کرنا اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن اور عبادات میں اہم عبادت ہے‘ قرآن کریم میں صرف وہ مقامات جہاں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم ہے۔

زکوٰۃ ادا کرنا اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن اور عبادات میں اہم عبادت ہے‘ قرآن کریم میں صرف وہ مقامات جہاں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم ہے اسی(80) سے زائد ہیں‘ جبکہ وہ مقامات جہاں منفرد طورپر زکوٰۃ کا حکم ہے اس کے علاوہ ہیں۔

عبادات بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں (۱) بدنی عبادات مثلاً نماز (۲) مالی عبادت مثلاً زکوٰۃ‘ اسی لئےقرآن وحدیث میں عام طور سے عبادت کے بیان میں نماز اور زکوٰۃ کے تذکرے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

سورۂ بقرہ کے آغاز میں اہل تقویٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں بھی نماز اور انفاق کو اہمیت سے ذکرکیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

’’(قرآن کریم) ہدایت ہے اہل تقویٰ کے لئے ، جوغیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور جو رزق ہم نے دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
یہ مشہور حدیث تو ہر مسلمان کو یاد ہونی چاہئے اور دل میں اس پر کامل یقین ہو تاکہ اسلام کی بنیاد کمزور نہ ہو۔ وہ حدیث نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے:
’’اسلام کی بیناد پانچ چیزوں پر ہے(۱) لا الہ الا اﷲمحمد رسول اﷲ کا اقرار(۲) نماز قائم کرنا(۳) زکوٰۃ ادا کرنا(۴) رمضان کے روزے رکھنا(۵) بیت اﷲ کا حج کرنا۔

نمازاور زکوٰۃ کا باہمی اس قدر گہرا اور مضبوط تعلق ہے کہ جو شخص نماز ادا کرتا ہو مگر زکوٰۃ نہ دیتا ہو، اس کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ:
’’ اﷲ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتے جو زکوٰۃ ادا نہ کرے، اس لئے کہ اﷲتعالیٰ نے(قرآن میں) زکوٰۃ کو نماز کے ساتھ جمع کیاہے، پس ان دونوں میں فرق نہ کرو‘‘۔(کنزل العمال)

زکوٰۃ مال کا وہ حصہ ہے جس کا ادا کرنا فرض ہے اور آج مسلمانوں کی شومئی قسمت کہ وہ اس فرض سے نہ صرف غافل ہیں بلکہ مسلمان کہلانے والوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس فرض کا نام سن کر، اس کا تذکرہ سن کر تنگ دل ہونے لگتا ہ. اسے اﷲ کے نام پر مال کی ادائیگی گراں لگتی ہے، بہت سے مسلمان زکوٰۃ کی فرضیت سے غافل ، بہت سے لوگ حیلوں اوربہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی بدولت زکوٰۃ سے بچ جائیں، کچھ مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں مگر پورا حساب کتاب کئے بغیر محض اندازے سے یا ذوق کے مطابق کچھ مال زکوٰۃ کے نام سے نکال دیا حالانکہ یہ بھی بڑی کوتاہی ہے، زکوٰۃنکالنے کے لئے پہلے پورا حساب کتاب کیا جائے تاکہ زکوٰۃ کی اصل رقم معلوم ہو اور پھر اس کی ادائیگی کی ترتیب بنائی جائے ۔

زکوٰۃکے بارے میں قرآن وحدیث میں کثرت اور وضاحت کے ساتھ تمام ضروری احکام و ہدایات موجود ہیں اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر بہت سخت وعیدات و تنبیہات سنائی گئی ہیں اور یہ سب اہتمام ہم جیسے ایمان والوں کے لئے کیا گیا ہے جو نفس اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اسلامی احکامات سے دور ہو جاتے ہیں تو اﷲ اور اس کے رسولؐ نے مختلف عنوانات اور قسما قسم کی ترغیب سے ان احکامات پر عمل کا شوق ابھارنے کا سامان فراہم کیا ہے۔

یوں تو قرآن وحدیث میں اس موضوع پر بہت سا مواد موجود ہے لیکن یہ خاکسار یہاں محض ترغیب اورشوق دلانے کے لئے زکوٰۃ ادا کرنے کے حکم پر مشتمل احکام و فضائل والی چند آیات و احادیث کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہے‘ اللہ کرے ان کی برکت سے ہماری ہدایت کا سامان ہو جائے‘ ارشاد خداوندی ہے۔
’’ اور قائم کرو تم لوگ نماز کو اور زکوٰۃ ادا کرو اور عاجزی کرو عاجزی کرنے والوں کے ساتھ۔‘‘(سورہ بقرہ) حضرت تھانویؒ نے اس آیت کی تفسیر میں جو تحریر فرمایا، اس کا خلاصہ یوں ہے کہ اسلامی احکام میں اعمال دو قسم کے ہیں‘ ظاہری اعمال اور باطنی اعمال‘ پھر ظاہری اعمال کی دو قسمیں ہیں بدنی عبادات اورمالی عبادات گویا اب تین کلیات ہو گئیں‘(۱)بدنی عبادات(۲) مالی عبادات(۳) باطنی اعمال… اﷲ تعالیٰ نے درج بالا آیت میں ان تینوں کلیات کی اہم جزئیات بیان فرما دی ہیں‘ بدنی عبادات کے سلسلے میں نماز کا ذکر کر دیا۔ مالی عبادات کے سلسلے میں زکوٰۃ کا ذکر کر دیا اورباطنی اعمال کے سلسلے میں عاجزی و تواضع کا ذکر کردیا‘ اس سے بخوبی معلوم ہو گیا کہ جس طرح بدنی عبادات میں نماز سب سے مقدم اور اہم ترین ہے اسی طرح مالی عبادات میں زکوٰۃ سب سے مقدم اور اہم ترین ہے‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور میری رحمت(ایسی عام ہے کہ) تمام چیزوں کو محیط ہے ، پس اس کو(کامل طور پر خاص کر کے) ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘(سورۂ اعراف)

مزید پڑھیں:  عمرہ زائرین کو مقررہ 3 ماہ کے اندر اپنے وطن لوٹنا ہوگا، اعلامیہ جاری


بزرگوں نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں ہرشخص کے ساتھ ہے، نیک ہویا بد سب اس رحمت سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، لیکن آخرت میں یہ رحمت خاص متقی لوگوں کو ملے گی، جیسا کہ درج بالا آیت میں ارشاد ہوا اورساتھ میں یہ بھی بتایا کہ متقی لوگوں کا ایک وصف اور ایک خاص پہچان یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اس آیت سے بھی زکوٰۃ کی اہمیت پوری طرح واضح ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو چیز تم اس غرض سے دو گے کہ سود بن کر لوگوں کے مال میں بڑھوتی کا سبب بنے تو یہ (چیز) اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھتی اور جو زکوٰۃ( یا دیگر صدقات وغیرہ) دو گے جس سے تمہیں اﷲ کی رضاء مقصود ہو توایسے لوگ اپنے دیئے ہوئے مال کو اﷲ تعالیٰ کے پاس بڑھاتے رہیں گے‘‘۔(سورہ روم)

اس آیت میں سود اور زکوٰۃ کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے اور دونوں میں فرق بیان کیا گیا ہے کہ سود سے بظاہر مال بڑھتا ہے لیکن اﷲ کے ہاں ایسے مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ‘اس کے برعکس زکوٰۃ جو محض اﷲ کی رضاء کے لئے دی جائے بظاہراس میں اپنا مال کم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ عمل ان کے لئے بہت مفید ہے اس طرح ان کا مال اﷲ کی ہاں بڑھتا رہتا ہے اور قیامت کے دن جب اہل ایمان اپنے اموال کا ثواب دیکھیں گے تو ان کی خوشی دوگنا ہو جائے گی۔

زکوۃ ادا نہ کرنے کی مذمّت احادیث کی روشنی میں

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: اور خرابی ہے شرک والوں کو، وہ جو زکوۃ نہیں دیتے، اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔

اور فرماتا ہے: اور وہ کہ جمع کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اُنہیں خوشخبری سناؤ، دردناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اُس سے داغیں گے اُن کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں۔ یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا، اب چکھو مزا اس جمع کرنے کا۔(التوبۃ:۳۴۔۳۵)


اللہ ربّ العالمین ارشاد فرماتا ہے: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہر گز اُسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں، بلکہ وہ انکے لیے بُرا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا، قیامت کے دن اُن کے گلے کا طوق ہوگا۔
اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا، او ر اللہ تعالی تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(آل عمران :۱۸۰)

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے فرمایا:جس کوﷲ تعالیٰ مال دے اور وہ اُس کی زکوۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دو چتّیاں ہوں گی۔
وہ سانپ اُس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔” اس کے بعد حضورﷺنے اس آیت کی تلاوت کی (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ )الخ

مزید پڑھیں:  سفارتی تعلقات بحال، 9 سال بعد ایران سے معتمرین عمرہ ادائیگی کیلئے سعودی عرب روانہ

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے فرمایا:”جس مال کی زکوۃ نہیں دی گئی، قیامت کے دن وہ گنجا سانپ ہوگا، مالک کو دوڑائے گا، وہ بھاگے گا یہاں تک کہ اپنی انگلیاں اُس کے منہ میں ڈال دے گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے فرمایا:”جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پتّر بنائے جائیں گے اون پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور اُن سے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔

پھرنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اونٹ، گائے اور بکریوں کا جو مالک،اُن کی زکوۃ ادا نہیں کرے گا، اُسے قیامت کے دن ایک چٹیل میدان میں لِٹایا جائے گا، یہ چوپائے اُسے اپنے سینگوں سے ماریں گے، اور اپنے کُھروں سے روندیں گے، جب اُس پر اُن میں سے آخری جانور گزر جائے گا، تو دوبارہ پہلے گزرنے والا جانور آجائے گا، حتی کہ اُس دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، پھر اُس شخص کو اُس کا رستہ دکھایا جائے گا، وہ رستہ یا تو جنت ہوگا یا پھر دوزخ، اور جو خزانے کا مالک اپنے خزانے کی زکوۃ ادا نہیں کرے گا بروزِ قیامت اس کے لیے اس کے خزانے کو گنجے سانپ کی صورت میں کردیا جائے گا۔

(صحیح البخاری)
بلاشبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے مانعینِ زکوۃ پر جہاد فرمایا، اور ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اگر وہ لوگ مجھ سے بکری کے بچے کو بھی روکیں گے، جو وہ رسول اللہ ﷺ کو ادا کیا کرتے تھے، تو اِس ر وکنے کے سبب میں، اُن سے جہاد کروں گا۔ (صحیح البخاری)


سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فرماتے سنا کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:پہلے تین شخص جو جہنم میں داخل ہوں گے وہ یہ ہیں: (زبردستی)مُسَلّط ہونے والا امیر،(۲) وہ مالدار شخص جو اپنے مال کے بارے میں اللہ عزوجل کا حق ادا نہ کرتاہو،(۳) متکبر فقیر ۔

زکوٰة کی اہمیت، رکنیت، فضیلت اور ترغیب کے چند پہلووں پر مشتمل یہ چند آیات اور احادیث ان تمام مسلمانوں کے لئے کافی ہونی چاہئیں جو صاحب نصاب ہیں اور ان پرزکوٰةفرض ہےکیوںکہ اس کے بغیر اسلام کی تکمیل نہیں ہوتی، پھر قابل غور بات یہ بھی تو ہے کہ یہ مال اﷲ نے ہی دیا ہے اب اگر اسی کے دیئے ہوئے مال سے تھوڑاساحصہ اس کے نام پر نکال لیا جائے اوراس کی برکت سےاپنا باقی تمام مال پاک صاف اورمحفوظ بنالیا جائے تو یہ کتنی بڑی غنیمت ہے اور اﷲ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل اور احسان ہے جس سے اس نے نوازا ہے۔ بس ہم اﷲ کےفرماں برداربنیں اور ہر قسم کی سرکشی اور نافرمانی سے اس کی پناہ مانگیں کیوں کہ:

”یہ اﷲ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطاءفرماتا ہے“۔