پاک امریکہ تعلقات تاریخ کی کمتر سطح پر

امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین پاکستان کے دورے پر آئیں تو ان کی آمد ورفت بہت پھیکی او بدمزہ رہی ۔نہ ائر پورٹ پر سرخ قالین بچھا اور نہ ہی پاکستان کا کوئی اعلیٰ اہلکار ان کے استقبال کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کئے ہوئے جہاز کے باہر موجود تھا ۔صرف امریکی سفارت خانے کے افسر اپنی سرکاری اور ملکی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نورخان ائر بیس پر موجود تھے۔وینڈ ی شرمین کے ساتھ سویلین نظام کی میٹنگ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وفد کے ساتھ ملاقات تھی اور شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے دفتر سے باہر نکل کر ان کے استقبال میں دلچسپی نہیں لی ۔کچھ عقابی دوستوں کا خیال تو یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کی بجائے یہ ملاقات سیکرٹری خارجہ کے ساتھ ہونی چاہئے تھے ۔یہ ذرازیادہ ہی مثالیت پسندی ہوتی ۔اس بات میں بھی وزن ہے کہ جب ڈومور اور شکوے شکایتیں ہی سننا ہیں تو کوئی بھی سن کر پوری ریاست کو آگاہ کرے ۔کیا عجب بے اعتنائی اور بے رخی سی ہے جس کی پاکستان سے امریکہ کو نہ تو توقع رہی ہے اور نہ ہی امریکہ کے معاملے میں یہ پاکستان کی روایت رہی ہے اور تو اور اب پاکستان کا سویلین حکمران امریکہ سے آئے مہمانوں سے ملاقات تک نہیں کرتا ۔سی آئی اے کے چیف کی آمد کے بعد نائب وزیر خارجہ تک پاکستان نے امریکہ سے نظریں پھیرنے کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔کہاں وہ دن کہ امریکی اہلکار پاکستان آتے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پوری سول اور فوجی قیادت کو ساتھ لے کر وفد کے روبرو ہوتے ۔یوں لگتا کہ کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔یہ تو ماضی قریب کا ایک منظر ہے کسی ایک دور کی بات نہیں پاکستان اور امریکہ کے بگاڑ کے تین عشروں میں امریکہ کا پاکستان کے لئے رویہ یونہی تحکمانہ اور تمکنت سے بھرپور رہا ۔جواب میں پاکستان فدویانہ او ردرباری انداز اپنائے نظر آتا رہا ۔پاکستان کے حکمران اپنے پروٹوکول اور منصب کا لحاظ کئے بغیر امریکی ایلچی کو وائسرائے جان کر ملاقات کا موقع فراہم کرتے ۔اس سلسلے کو کہیں جا کر ختم تو ہونا تھا اور ایک نہ ایک روز لکیر کھنچنا لازم تھا ۔یہ لکیر بھی تقدیر نے کھینچی اور امریکہ کے رویے نے اس میں بنیادی کردار ادا کیاجس نے پاکستان پر یہ واضح کیا کہ اب امریکہ سے جھڑکیوں ،طعنوں اور نصیحتوں اور یک طرفہ دھمکیوں کے سوا کسی خیر کی توقع نہیں رہی ۔اس لئے لکیر کھینچنے کا مناسب وقت یہی تھا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تاریخ کی کمتر سطح پر ہیں یا دونوں کے تعلقات ابتری کی انتہا کی سمت جاری ہیں؟ہر دو باتیں درست ہیں۔دونوں ملکوں کے
تعلقات میں بحالی کو ششوں کی کامیابی کو اب بہت کم بچا ہے ۔یہ راتوں رات نہیں ہوا اس کے پیچھے برسوں کی طویل کہانی ہے جو تلخ واقعات سے عبارت ہے ۔سرد جنگ کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جو گہرائی اور گیرائی پیدا ہونی چاہئے تھی ترقیٔ معکوس کا شکار ہو گئی ۔امریکہ اور پاکستان سوویت یونین کی شکست کا جشن بھی مل کر منا سکے ۔سوویت یونین ابھی ڈول ہی رہا تھا اور افغانستان میں اس کی شکست کے آثار نظر آنے لگے تھے کہ امریکہ نے پاکستان سے نظریں پھیرنا شروع کر دی تھیں ۔افغانستان کے مستقبل پر ریگن انتظامیہ اور جنرل ضیاء الحق کے درمیان ایک کشمکش اور کشیدگی پیدا ہوچلی تھی ۔یہ محض ایک مسئلے پر رائے کا اختلاف نہیں تھا بلکہ یہ سوچ کا زاویہ اور مستقبل کی راہوں میں اس تبدیلی کا آغاز بھی تھا جس کا عنوان تھا ”کھیل ختم پیسہ ہضم” ۔ اب امریکہ کو مابعد سوویت یونین وکمونزم ایجنڈا تشکیل دینا تھا اس نئے کھیل میں پاکستان کی ضرورت نئے انداز سے تھی ۔اب پاکستان براہ راست ضرورت نہیں بلکہ ملانصرالدین کے لطیفے کی طرح یخنی کی یخنی تھا ۔اب بھارت امریکہ کی ضرورت تھا اوربھارت کی ضرورت کے طور پر پاکستان بھی ضروری تھا ۔بھارت کے مستقبل کے منصوبے اور عزائم اور چین کے مدمقابل کھڑے ہونے کی کوشش میں پاکستان کا ساتھ ضروری تھا ۔اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے امریکہ نے جنرل ضیاء الحق کی رائے کے برعکس محمد خان جو نیجو جیسے کمزور اور غیر جماعتی وزیر اعظم کو اس قدر آکسیجن فراہم کی کہ وہ جنیوا معاہدہ کر بیٹھے اور اوجڑی کیمپ کی تلاشی کی راہ پر چل پڑے ۔یوں پاکستان میں منحنی اور نحیف ونزار جمہوری تجربہ پہلے مرحلے پر ہی لڑکھڑا کر گر پڑا اور جنرل ضیا نے اپنے ہی تراشیدہ مٹی کے گھروندے کو ناکام تجربہ قرار دے کر توڑ کر رکھ دیا ۔جونیجو سویلین بالادستی کی خواہش کا یہ انجام دیکھ کر خاموشی سے گھر چل دئیے مگر امریکہ کو اپنے دس سالہ اتحادی ضیاالحق کی یہ ادا ایک آنکھ نہیں بھاسکی اور ابھی یہ کھیل چل ہی رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کا جہاز حادثے کا شکار ہوا اور ماضی کی یادیں اور تعلقات کا ایک باب انجام کو پہنچ گیا ۔امریکہ نے صرف ایک باب ہی نہیں پوری کتاب کو بند کردیا۔اس کے بعد نئی ضرورت کے تحت امریکہ نے چین کو نشانے پر رکھ لیا اور چین کے ساتھ پاکستان کے روایتی اور دیرینہ تعلق پر بھی اس کی ز د پڑنے لگی ۔چین اور پاکستان کا تعلق بقائے باہمی پر مبنی تھا اور یہ صدقہ وخیرات نہیں بلکہ دونوں کے مفادات پر مبنی تھا ۔دونوں کا رہن سہن ،تہذیب وثقافت مذہب اور رنگ ونسل کچھ بھی نہیں ملتا تھا مگر اس کے باوجو د مشترکہ مفادات اور مقاصد نے انہیں جوڑا ہوا تھاامریکہ کے مقاصد یہ تعلق توڑنے بغیر پورے نہیں ہوتے تھے اس لئے پاکستان اور امریکہ کے مفادات کی گاڑیاں دومتضاد راہوں کی طرف رینگنے لگیں ۔امریکہ بھارت کی طرف لپکا تو پاکستان چین کی جانب لڑھکا اور کئی عشروں میں بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وینڈی شرمین اپنا بیگ اُٹھائے ہوئے آئیں اور رخصت ہوئیں کوئی ہاکا کار اور ہلچل مچی نہ شادیانہ بجا ۔ساری بیٹھک کی کہانی فارسی کے تین لفظوں پر مشتمل رہی نشتند گفتند وبرخاستند۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند