2 106

مشرقیات

سعید بن عاس کا ہاتھ سخاوت میں بہت مشہور تھا ۔ جب بھی ان کے پاس کوئی سائل آتا تو آپ ان کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ۔ اگر کچھ نہ ہوتا تو کسی سے قرض لے کر اس کی حاجت بر اری فرماتے ۔ چنانچہ جب ان کا انتقال ہوا تو اس قسم کے بہت سے قرض آپ کے ذمے واجب الادا تھے ۔
کسی طرح سے وقت کے امیر المومنین کو معلوم ہوگیا تو انہوں نے اس کے صاحبزادے عامر بن سعید کے پاس وافر رقم بھیج دی اور کہلو ادیا کہ اسے تقسیم کر کے اپنے والد محترم کا قرض اتاردو۔
عامر بن سعید نے وہ رقم جوںکی توں واپس کردی اور کہا ، میں یہ رقم لے لیتا ہوں تو میرے والد صاحب کی سخاوت پر حرف آئے گا ۔ امیر المومنین نے دریافت کیا کہ پھر تمہارے والد محترم کا قرض کس طرح ادا ہوگا؟
عامر بن سعید نے فرمایا : امیر المومنین ! آپ ان کا محل قیمتاً خرید لیں ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے والد محترم کا محل فروخت کر کے اس کی قیمت قرض داروں میں تقسیم کردی ۔سخی والد کے سخی بیٹے کی سخاوت کی یہ عمدہ مثال ہے جس نے اپنے والد محترم کی صفت سخاوت پر حرف نہ آنے دیا ۔ (مخزن اخلاق)
مسلمانوں کا وہ خواب جس کی تعبیر کے وہ صدیوں سے منتظر تھے پورا ہوگیا ۔ باز نطینیوں کو شکست ہوگئی اور مسلمانوں نے قسطنطنیہ فتح کر لیا ۔ فتح کے بعد اس کا نام استنبول ہوگیا ۔ سلطان محمد الفاتح کے بعد اپنے سفید گھوڑے پر توپ کاپی (TOPHKOPI)کی جانب سے شہر میں داخل ہورہا تھا ۔ سلطان کے ساتھ علمائی ، فوجی اور دیگر قائدین تھے۔
ہزاروں لوگوں نے آیا صوفیہ کے گرجے میں پناہ لے رکھی تھی ، جنہیں کسی معجزے کی توقع تھی کہ آخری وقت پر انہیں با حفاظت یہاں سے نکال لیا جائے گا ۔ ان کے پادریوں نے ان میں یہ غلط فہمی پھیلا رکھی تھی کہ آسمان سے ایک فرشتہ اترے گا جو ان مسلمانوں کو بھسم کر دے گا ۔ مسلمان آیا صوفیہ کے گرجے میں داخل نہیں ہو سکیں گے ۔ فرشتہ انہیں ”جامبرلی طاش ” نامی جگہ سے آگے نہیں بڑھنے دے گا ۔ یہ جگہ کنیسہ سے بمشکل تین سو کلو میٹر کے فاصلے پر تھی ۔ یہ پادریوں کی باتوں پر یقین رکھنے والے چند لوگ تھے ۔
شہر کے باقی لوگوں کو ان پادریوں کی باتوں پر یقین نہیں تھا ۔ وہ نئے فاتح کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے راستوں پر کھڑے تھے ۔ سلطان محمد فاتح اپنے سارے لائو لشکر کے ساتھ جارہے تھے ۔ عثمانی ترکوں سے ایک درویش سلطان کے سامنے آیا اور کہا : اے سلطان !ہماری دعائوں کی اہمیت سے آپ انکار نہیں کر سکتے ۔ یہ شہر ہماری دعائوں کی بدولت فتح ہوا ہے ۔ سلطان محمد فاتح مسکرایا پھر میان سے اپنی تلوار نکالی اور کہا: درویش صفت بزرگ محترم ! مجھے دعائوں کی اہمیت سے انکار نہیں ہے ، لیکن اس فتح میں آپ کو اس تلوار کے کردار کو نہیں بھولنا چاہیے ۔
(روائع من التا ریخ العثمانی ، ص ،42)

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا