پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ موضوعات سامنے ہوتے ہیں اور پکار پکار کر دعوت دے رہے ہوتے ہیں کہ ”میں ہوں ناں” مگر ساتھ ہی وہ جو ایک مخصوص بیانیہ ہوتا ہے کہ ”خوف فساد خلق” تو اس کی وجہ سے ایسے موضوعات سے کنارہ کشی اختیار کرناپڑ جاتی ہے وگر نہ ان موضوعات کے اندرسے”اک ذراچھیڑیئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے” جیسی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں ‘ پر کیا کیا جائے کہ ”بندہ” اپنے دامن کی تنگی کے احساس میں مبتلا ہو کر”جرأت اظہار” سے یہ سوچ کر دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ والی کیفیت میں جائے پناہ ڈھونڈ لیتا ہے ‘ حالانکہ یہ بات بھی دامان خیال میں موجود ہوتی ہے کہ
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
مصرعہ ثانی میں یہ جو فرشتوں کا ذکر ہے تو اسے واوین میں رکھ کر دیکھ لیں تو مرزا غالب کے اس شعر کی تفسیر بن کر پورے منظر کو واضح کر دیتی ہے یعنی
پکڑے جاتے ہیں”فرشتوں” کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں”فرشتے” جن پر سیاسی زبان میں لاگو کیا جاتا ہے ‘ ان سے بڑے بڑے کانپ جاتے ہیں ‘ اور ویسے بھی سرکار والا مدار ان دنوں جو قوانین میڈیا(ہر قسم کی میڈیا) پر لاگو کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوئے”قانون سازی” کرنے میں مگن ہے اس کی وجہ سے جید صحافیوں کے بھی پر جلنا شروع ہوچکے ہیں تو ہم ایسے ہیچمدان کس قطار شمار میں ہو سکتے ہیں ‘ اسی ضمن میں لگ بھگ دو دہائیاں پہلے ہم نے ایک شعر اسی مضمون کا کہا تھا کہ
عشق و حسن سب فانی ‘ پھر غرور کیا معنی
کس شمار میں ہم ہیں ‘ کسی قطار میں تم ہو
بہرحال کسی بھی”اختلافی صورتحال” سے بچنے کے لئے ”ایران توران” کی ہانکنے میں کیا قباحت ہے جہاں کسی نہ کسی معاملے پر اظہار رائے بھی ہو جائے اور ”کمزور کھال” بھی محفوظ رہے ‘ اس حوالے سے سب سے آسان ”ٹارگٹ” او آئی سی(جسے اب اوہ ۔ آئی سی کہا جاتا ہے) سے زیادہ موزوں موضوع کیا ہو سکتاہے ۔ او آئی سی نے ایک بار پھر انگڑائی لیکر آسام(بھارت) میں مسلمانوں پر مظالم کی مذمت کی ہے جس پر بھارت سیخ پا ہوگیا ہے ‘ اس کا تو سیدھا سادہ مطلب یہی نکلتا ہے کہ او آئی سی کا تیر نشانے پر بیٹھا ہے ‘ وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب بھارت بھی مغربی دنیا کی طرح او آئی سی کے حوالے سے ”ستے خیراں” والی کیفیت محسوس کر رہا تھا ‘ کیونکہ اس نے جس طرح”اسلامی ممالک” کو سرمایہ کاری کے شیشے میں اتار کر ان کے ساتھ دوستی اور تعاون کی پینگیں بڑھا رکھی ہیں ‘ اور نتیجے میں یہ خلیجی اور عرب ممالک بھارت کے صدقے واری جا رہے ہیں ‘ یہاں تک کہ اب بعض خلیجی ممالک میں بھارت کو اپنے ہاں مندر بنانے اور ان میں مورتیوں کے سامنے ان ممالک کے”بااثر” افراد کے ہاتھوں میں پوجا پاٹ کی ہندوئوں کی نقل کرتے ہوئے ”بھائی بھائی” بنانے کے مظاہرے نظر آئے ہیں ‘ اس کے بعد بھارتی بھی ان خلیجی ”حکمرانوں” کے گرد ”طواف” کرتے خوشی سے نہال ہوتے رہتے ہیں ‘ اگرچہ اس پر چوں کفر از کعبہ برخیزد ‘ کجاماند مسلمانی والی صورتحال کی تطبیق بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے تاہم یہ جو اچانک او آئی سی نے (اوہ۔۔آئی سی) سے انگڑائی لیکر آسام کے مسلمانوں پر بھارت کے ہندو توا کے رکھوالوں کی جانب سے مظالم ڈھائے جانے پر مذمتی بیانیہ اختیار کیاہے تو بھارت کا اس پر چیں بہ جبیں یعنی سیخ پا ہونا تو بنتا تھا ‘ کیونکہ بھارت کا تو یہ خیال ہے کہ وہ جس طرح باہم سرمایہ کاری کے حوالے سے ان خلیجی اور عرب ممالک کے ساتھ آگے کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے اور جس کی وجہ سے یہ ممالک اور مسلمان ممالک کی محولہ تنظیم یعنی او آئی سی کشمیری مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ بھارتی اقدامات پر خاموشی کی بکل اوڑھے جان بوجھ کر ”اندھے” بنے ہوئے ہیں ‘ اسی طرح آسام کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی خاموشی کی کیفیت اختیار کریں گے ‘ مگر اچانک او آئی سی نے انگڑائی لیکر بھارتی مظالم کا پردہ چاک کر دیا ہے ‘ اب دعا یہی ہے کہ یہ صورتحال برقرار رہے اور یہ نہ ہو کہ بھارت کی اس”سیخ پائی” سے او آئی سی بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہوجائے یعنی بقول شاعر
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا مجھے تو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
کیونکہ بھارت نے ”تڑی” لگائی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے ‘ بھارت کو شاید یہ معلوم نہ ہو (اگرچہ وہ سب جانتا ہے) کہ مسلمانوں کے لئے ایک آفاقی سبق یہ دیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک جسم و جان کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کسی ایک کو تکلیف پہنچتی ہے تو سمجھو سب کو تکلیف ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ اب دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے سے لاتعلق بن کر ٹکڑیوں میں بٹ چکے ہیں ‘ بلکہ مسلکوں کی جنگ میں مبتلا ہو کر فرقہ پرستی کے اسیر ہو چکے ہیں ‘ اس لئے جب کسی ایک کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ تفرقہ بازی کا شکار ہوکر لاتعلقی کے کوہ گراں کو کاندھوں پر اٹھاکراندر ہی اندر خوشی سے سرشار ہوتے ہیں کہ اس کے مخالف فکری اور نظریاتی گروہ کو کمزور کیا جارہا ہے اس لئے ”اسے کیا” یعنی وہ جو ملا نصیر الدین نے ایک شخص سے کہا تھا جس نے گلی میں ا نواع و اقسام کے کھانوں کی پرات کے ساتھ ان کے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھ کر کہا ‘ ملا جی دیکھیں کتنی اچھی خوشبوئیں امڈ رہی ہیں اس خوان سے ؟ اور ملا جی نے کہا ‘ پھر مجھے کیا ‘ تب وہ ملا جی ‘ دیکھئے وہ پرات تو آپ کے گھر جا رہی ہے ‘ اور ملا نصیر الدین نے ترنت جواب دیا ‘پھر تجھے کیا؟ بہر حال جب تک او آئی سی حقیقی معنوں میں او آئی سی بن کر دنیا بھر کے مسلمانوں کومتحد کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرے گا ‘ وہ اوہ ۔۔ آئی سی کے دائرے سے باہر نہیں آسکے گا اور پھر بھارت جیسے ملک کو بھی تڑیاں لگانے سے کوئی باز نہیں رکھ سکے گا۔ کہ بقول علامہ اقبال
تراش ازتیشۂ خود جادۂ خویش
براہ دیگراں رفتن عذاب است