گیسوے اردو منت پذیرشانہ ہے

صوبائی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے جملہ اداروں کووزیر اعظم کی تقریبات کا تمام تر کارروائی قومی زبان اردومیں کرنے کی ہدایت مستحسن قدم ضرور ہے لیکن اردو کی ترویج و ترقی کے لئے یہ اقدام کافی نہیں بلکہ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے احکامات کی تعمیل اور ایم ایم اے حکومت کی طرح اردو میں سرکاری طور پر خط و کتابت شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایم ایم اے کے دور میں کامیاب تجربہ کے بعد اب اس حوالے سے کوئی پیش رفت اس وقت ہی اردو سے محبت اور قومی زبان کی توقیر مانی جائے گی جب موجودہ حکومت دو قدم آگے بڑھائے جس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اردو اگر حکومت کی ترجیح ہوتی اور اسے قومی زبان کا حقیقی درجہ دینے کی زحمت کی جاتی تو آج صوبے کی سرکاری زبان اردو ہوتی اسی طرح مرکزی حکومت اگر چاہتی تو اردو میں سرکاری کارروائی کوئی مشکل امر نہ تھا بہرحال اب جبکہ ا یک باقاعدہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے تو اسے وسعت دی جائے وزیر اعظم کے بعد وزیر اعلیٰ بھی اس کی پیروی کریں ایسا کرنے سے کمزور انگریزی والوں کوخود کو بھی آسانی ہوگی۔اردو کی ترویج عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں قانونی ضرورت بھی ہے۔ قومی سطح پر بھی اس کی ضرورت مسلمہ ہے اس حوالے سے اقدامات عظیم قومی خدمت ہو گی۔
آخر کب تک؟
صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبہ کے کئی شہروں میں گیس کی بندش اور بجلی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔اس وقت پشاور میں بجلی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ14گھنٹے سے تجاوز کر گیا ہے جبکہ بعض علاقوں میں گیس مکمل طور پر دستیاب نہیںجس کے نتیجے میں شہریوں کے مسائل دو آتشہ ہوگئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بجلی کا تعطل تربیلہ میں فنی خرابی کے باعث پیدا ہوا ہے جس کو تاحال ٹھیک نہیں کیا جا سکا ہے دوسری طرف گیس کی کمی کے باعث ملک میں ضروریات کیلئیپچاس فیصد ایل این جی استعمال کرنے اور اس کیلئے قطر سے سپلائی میں تاخیر سے تمام تر دبائو سوئی گیس وغیرہ پر آگیا ہے اس لئے گھریلو اور تجارتی سطح پر گیس بالکل بھی دستیاب نہیں اس صورتحال میں سی این جی سٹیشنز تقریباً بند کر دیئے گئے ہیں اور گھریلو صارفین سلنڈر گیس استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ واضح رہے بجلی کی پیداوار میں تکنیکی مسائل کے باعث طلب اور رسد میں فرق پیدا ہونے سے نیشنل گرڈ سٹیشن سے خیبر پختونخوا کے لئے بجلی کی سپلائی میںچھ سو میگاواٹ کمی کردی گئی ہے اس موسم میں جبکہ بجلی کی طلب میں کمی آگئی ہے اس کے باوجود فنی خرابی کے نام پر بجلی کی طویل بندش حقیقی معنوں میں کسی تکنیکی مسئلے کی وجہ سے ہے یا پھر کوئی دوسری وجہ ہے اس سے قطع نظر عمومی طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ اور ساتھ ہی گیس کی بدترین صورتحال عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے اس صورتحال کے باعث عوام کو ایندھن کے مد میں اضافی اخراجات کا بوجھ اٹھانا مہنگائی کے مارے لوگوں کے لئے ایک اور بڑی مشکل کا باعث ہے ماضی میں ایل این جی معاہدوں پر تنقید کرنے والوں نے بروقت معاہدہ نہ کرکے عوام کو جس صورتحال سے دو چار کر دیا ہے اس پر خود ان کو غور کرنا چاہئے کہ جس نااہلی کا الزام وہ دوسروں کو دیتے آئے ہیں خود ان کی اپنی کارکردگی کا کیا عالم ہے آخر کب تک ماضی کے حکمرانوں کو کوستے ہوئے عوام کو سارے مسائل کا تعلق سابق حکومتوں سے ثابت کرتے رہیں گے موجودہ حکمران کب اپنے فیصلوں اور اقدامات سے عوام کو ریلیف دے پائیں گے۔
ویکسین لگانے کا عمل سوفیصد مکمل کرنے کی ضرورت
خیبر پختونخوا میں کورونا سے بچائو کیلئے جاری ویکسی نیشن میں دوسرا ٹیکہ لگانے والے افراد کیلئے ہسپتالوں اور ویکسی نیشن سنٹرز پر اتوار کادن مقرر کرنا مناسب فیصلہ ہے جس سے ملازمت پیشہ افراد کو خاص طور پر سہولت ہو گی قبل ازیں اتوار کے روز ویکسین لگانے کا سلسلہ ترک کر دیا گیا تھا اطلاعات کے مطابق پہلا ٹیکہ لگانے والے افراد کی ہفتے میں6دن کیلئے ویکسی نیشن کی سہولت ہوگی اس سلسلے میں12سال سے اوپر کے تقریبا 50لاکھ افراد کو حفاظتی ٹیکے مکمل کروانے کا دعویٰ کردیا گیا ہے ای پی آئی کے حکام کے مطابق اب تک بالغ افراد کی 25فیصد تناسب سے مکمل ویکسی نیشن مکمل کردی گئی ہے جبکہ49فیصد افراد کو پہلا ٹیکہ لگادیا گیاہے ۔ویکسین لگانے والوں کی تعداد اور اعداد و شمار سے قطع نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم اب تمام عوامی مقامات پر ویکسین لگانے کا اہتمام کرکے سو فیصد عوام کی ویکسی نیشن کا بندوبست کیا جائے جو لوگ ویکسین نہیں لگاتے اور جنہوں نے جعلی سرٹیفیکیٹ لے رکھے ہیںوہ دوسروں کے لئے بھی خطرات کا باعث ہیں جن کا کھوج لگانا اور ویکسین لگانے کے عمل کی تکمیل ضروری ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت اس حوالے سے عملی اقدامات کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فردگزاشت نہیں کرے گی اور ایسے اقدامات یقینی بنائے جائیں گے جس کے نتیجے میں لوگوں کو ترغیب دے کر ویکسی نیشن کی جائے گی یا پھر انکاری افراد کے خلاف مجبوراً ان اقدامات پر عمل درآمدکیا جائے گا جس کا حکومت وقتاً فوقتاً اعلان کرتی آئی ہے۔

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی