استکبار

جب سقوط مشرقی پاکستان کے وقت پوری قوم ایک اندوہناک المیے میں ڈوبی ہوئی تھی اس وقت ایک پاکستانی مسیحا نے سربراہ حکومت پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھ کر متوجہ کیا کہ وہ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتا ہے ۔ یہ ایک لمبی داستان ہے کہ اس مسیحا کی بھٹو مرحوم سے ملا قات کس جتن سے ہو پائی جبکہ ذوالفقار علی بھٹونے فوری پیغام بھیجوا دیا تھا کہ وہ ان سے ملیں ، پاکستانی ایٹم بم کی کہا نی الگ سے ہے ، اس وقت اس عظیم محسن پاکستان کا ذکر مقصود ہے جس نے سقوط مشرقی پا کستان کی بناء پر جھکے سروںکو بلند کر دیکھا اور احساس تحفظ کو کامل بنایا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنانے میں روز اول سے بیش بہا قربانیا ں دیں ہے اس میں ان کی مالی اور جانی اور اس میں عزت و احترا م پا کستان کی بھی قربانیا ں شامل ہیں ، جب پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر نے پاکستان کے وقار اور دوسری اپنی ضروریات کے لیے ڈاکڑ عبدالقدیر خان سے قربانی چاہی تو انہوں نے بلا کسی تامل کے خود کو قربانی کے گھاٹ پر چڑھادیا ، لیکن وطن نے ان کی عزت وتوقیر پرحرف نہ آنے دیا ، وہ کل بھی پا کستان کی نا مو س تھے آج بھی اور کل بھی پاکستان کے نا مو س اکبر وعظیم ہی رہیں گے ، جب ان طاقتوںکو بھنک پڑی کہ پاکستان بھی ایٹمی طا قت بننے جا رہا ہے تو پاکستان کی ترقی وخوشحالی سے خائف ان طاقتوں نے اس خبر کا سراغ لگانے اور ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو ٹھکا نے لگا نے کی سعی و سازشیں شروع کردیں اس بارے میں پاکستان کے سکیورٹی ادارے خاص طورپر آئی ایس آئی کو سلا م ہے کہ اس نے پو ری تندہی سے پا کستان کے ایٹمی پر وگر ام کو تحفظ فراہم کیا اور اس طر ح اپنی ایک آئینی اور قانونی فرض کو اوج ثریا تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، پاکستان کے ایٹمی طا قت بننے سے خائف ممالک نے مشتر کہ کا وشیں شروع کیں اور اپنی جا ن جوکھو ں میں ڈال دی ، ایک مرتبہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان میں تعینا ت فرانسیسی سفیر نے اپنا کرتب دکھا نے کے لیے کہوٹہ کا جہا ں اے کیو خان لیبارٹری قائم ہے سفارتی پروٹوکول کی خلا ف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طورپر دورہ کیا پھر واپسی پر اسلا م آباد کے زیر وپوائنٹ کے قریب ان کی ایسی دھنائی ہوئی اگر موصوف آج بھی زندہ ہیں تو اب بھی ہلدی تیل کی مالش کر ارہے ہو ں گے ،اور اپنے گردے کھجلاتے ہو ں گے ، جس کے بعد کسی بیر ونی ایجنسی اور شخص کی ہمت نہ پڑی کہ ادھر کا رخ کر تا ، مغربی ممالک اور خاص کر صہیونی لا بی کا طریقہ کا ر یہ ہے کہ مسلما نوں میں ایسے افراد کی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا جائے جو اپنے ملک کے استحکام کے لیے کچھ کر سکتے ہیں، چنانچہ عراق میں بھی ایسا ہی ہو اکہ جہا ںخفیہ طور ان تما م افرا دکا تقریباًصفایا کردیا گیا جو عراق کے لیے اعلیٰ دماغ قرار پائے تھے ، لیبیا کے جوہری پروگرام کا کیا حشر کیا گیا ، معمر قذافی جیسے مرد آہن کو بھی سرنگو ں ہو نا پڑا ، ایران کے اہم ترین جوہر ی سائنس دان کو اسرائیل سے بیٹھ کر نشانہ بنایا گیا ، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محسن پاکستان کے لیے کیا کیا جتن کیے گئے ہو نگے ، پاکستان کی آئی ایس آئی نے ان کی حفاظت کے لیے ایک ناقابل تسخیر دائر ہ بنا دیا تھا تاہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تادم مرگ یہ خواہش رہی کہ وہ آزادانہ گھومیں پھریں جب وہ ایسا کرسکتے تھے تب بھی ان کو ایسا نہیں کر نے دیا گیاجس کا قلق قوم کو بھی رہے گا ،بلکہ قوم اپنے محسن کے ساتھ سلو ک پر شرمسار بھی ہے ، بھارت کو بھی ایٹمی قوت بنانے میں ایک مسلما ن کا کردا ر ہے جس کو ابوالکلا م کے نام سے جاناجاتا ہے ، ابوالکلا م نے بھارت کو ایٹمی طا قت بنانے میں ایسی قربانیا ں نہیں دیں جس سے ڈاکٹرخان کو واسطہ پڑ ا، جب ابوالکلا م کا انتقال ہو ا تو بھارت کے وزیر اعظم نر نیدر مودی نے ان کے لاش کو سلوٹ پیش کیا ، اور ان کے قدمو ںپر سر جھکا کر ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے قدم بوسی بھی کی، محسن پا کستان کے ساتھ کیا ہو ا ، اب وہ ایک تاریخ بن گئی ہے ، حکومت کی طر ف سے ان کے انتقال پر اعلا ن ہو ا کہ ان کو سرکاری اعزاز سے دفنا یا جائے گا ،صرف پاکستا ن کے پا س اپنے محسن کے لیے یہ ہی اعزاز رہ گیا تھا ، سرکا ری علا نیہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان کو فیصل مسجد کے احاطے میں سپر د خاک کیا جائے گا ، مگر ان کو اسلا م آبا د کے ایچ ایٹ کے قبرستان میں سپر د خاک کیا گیا ، حالا نکہ ان کے لیے دونوں مقامات پر قبریں تیار کی گئی تھیں وزیر داخلہ شیخ رشید اسلام آباد والے قبرستان تشریف لائے تو انہوں نے استفسار پر بتایا کہ وزیر اعظم کی ہد ایت پر دونوں جگہ قبریںتیا ر کی جارہی ہیں ، وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے استفسار کیا جا رہا ہے کہ وہ محسن پاکستان کے جنازے میں کیوں شریک نہیں ہوئے اس کا جو اب کوئی حکومتی حلقہ نہیںدے پارہا ،اشارہ سکیورٹی کی طرف کردیاجاتا ہے جس پر پھر استفسار ہوتا ہے کہ وہ لنگر خانوں میں بے باک پہنچ جا تے ہیںتو وہاں کوئی عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوتا جب کہ محسن پاکستان کے جنازے میں جوپاکستان کی اہم ترین شخصیات شریک ہوئیں ان کے تحفظ کا بھی معاملہ کم نہ تھا تو پھر کیا عذر باقی رہتا ہے ، قلقلا خان دانشور کا مئوقف ہے کہ یہ بات کھلی کتاب ہے کہ خان صاحب کسی جنازے میںتشریف نہیںلے جا تے وہ اپنے عظیم رفیق نعیم الحق کے جنازے میں بھی شریک نہیںہوئے ، انھو ں نے کوئٹہ سانحہ کے مو قع پر صاف کہلابھیجا تھا کہ پہلے لاشو ںکو دفنائوں تو پھر وہ جلوہ آرا ہونگے ، تاہم دانشور قلقلا خان کے پا س یہ جواب نہیںہے کہ جب محسن پاکستان اسپتال میں زیر علا ج تھے اس مو قع پر کسی وزیر ، مشیر ، معاون خصوصی اور خود وزیر اعظم کی طرف سے عیا دت نہیں کی گئی نہ ان کی صحت یا بی کے لیے کلمات کہے گئے ، قلقلا خان اس جوابی استفسار پر خامو ش رہے کہ اس موقع پر تو حزب اختلا ف کی جانب سے بھی تو سکوت رہا ، بہر حال پوری قوم ڈاکٹر خان کی رخصتی پر غمناک ہے مگر کئی پاکستان دشمن اور مخالف قوتیں راحت کا اظہا ر کر رہی ہیں جن میں اسرئیل اور دیگر ممالک کے علا وہ ان کے میڈیا کے ادارے بھی ہیں ظاہر ہے کہ ان کی راحت اورسکون کی وجہ سمجھ میں تو آتی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہی ہے کہ پاکستان کے ایک عظیم محسن کو فیصل مسجد کے احاطے میں پیو ند خاک کردینے میںکیا عذر رہا ۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند