پی آئی اے کا صائب اقدام

پی آئی اے نے پشاور سے لاہور کے لئے پروازوں کا آغاز کرکے پشاور کے عوام خصوصاً صنعت کاروں اور تاجروں کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا ہے ‘ اگرچہ ابتدائی طور پر ہفتے میں دو پروازیں چلیں گی اور ممکن ہے کہ بعد میں اس میں اضافہ کر دیا جائے ‘ یاد رہے کہ پشاور اور لاہور کے درمیان پروازیں نامعلوم وجوہات کی بناء پر عرصہ ہوا منقطع کی گئی تھیں جس سے پشاور کی تاجر برادری کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ‘ اور اس حوالے سے مسلسل مطالبات کو متعلقہ حکام کوئی پذیرائی دینے کو تیار نہیں تھے’ اس ضمن میں صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے ‘ جس پر بالآخر توجہ دیتے ہوئے پی آئی اے حکام نے فی الحال ہفتے میں دو پروازیں چلانے کا آغاز کر دیا ہے اور اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو آنے والے دنوں میں مزید پروازیں بھی چلائی جا سکتی ہیں’ سی ای او پی آئی اے ایئر مارشل راشد ملک کے مطابق پی آئی اے پاکستان کے بڑے شہروں کو فضائی رابطے سے منسلک کر رہی ہے ‘ اس اقدام سے اہل پشاور کے دیرینہ مطالبے کی تکمیل کا آغاز ہو گیا ہے ‘ اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں نہ صرف پروازوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا بلکہ ماضی کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں تک بھی پروازوں کا دائرہ بڑھانے پر غور کیا جائے گا ‘ بلکہ اگر پی آئی اے کے پاس فی الحال سہولیات کی کمی ہے تو نجی فضائی کمپنیوں کو ان روٹس پر جہاز چلانے کی اجازت دینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے ‘ تاکہ عوام کو سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
قابل تشویش امر
مردان میں بچوں کو پیٹ کے کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لئے دی گئی گولیوں سے بچوں کی حالت غیر ہونے کی ا طلاعات خاصی تشویشناک ہیں ‘ خبروں کے مطابق متاثرہ بچوں کو طبی امداد کے لئے ہسپتال اگرچہ پہنچا دیا گیا ہے اور ڈپٹی کمشنر مردان نے واقعے کی تحقیقات کاحکم دے دیا ہے تاہم جومعلومات سامنے آئی ہیں ان پر سوال اٹھتے دکھائی دے رہے ہیں ‘امر واقعہ یہ ہے کہ بچوں کو پیٹ کے کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک باقاعدہ مہم کے حوالے سے دوا دی گئی جبکہ اس ضمن میں متعلقہ دوا کے ”قبل از وقت” دینے کا بیانیہ کسی بھی طور حلق سے نہیں اتر رہا ‘ یعنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وقت پر (نہ پہلے نہ بعد) دوا دینے سے یہ صورتحال جنم نہ لیتی؟ اس سلسلے میں اس بات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ جو دوا بچوں کو دی گئی کہیں وہ ایکسپائر تو نہیں تھی؟ جب تک اس بارے میں تحقیق نہیں کی جائے گی ‘ اصل حقائق سامنے نہیں آسکیں گے ‘ امید ہے کہ تحقیقات میں کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی جائے گی اور عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا جائے گا۔
فارن کرنسی ڈیلرز کے خلاف کارروائی
ایف آئی اے خیبر پختونخوا نے غیر ملکی کرنسی کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے دوران اب تک 53ملین کی ملکی و غیر ملکی کرنسی برآمد کرکے ہنڈی اور حوالہ جات میں ملوث ا فراد پر گرفت مضبوط کر لی ہے جہاں تک غیر قانونی طور پر فارن کرنسی کا کاروبار کرنے کا تعلق ہے اس سے نہ صرف یہ کہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے پاکستان پر منی لانڈرنگ سے آنکھیں بند ہونے کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے پاکستان پہلے ہی ایف اے ٹی ایف میں گرے لسٹ پر موجود ہے اگرچہ محولہ ادارے کی جانب سے اٹھائے گئے بیشتر اعتراضات دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر منی لانڈرنگ اور کچھ دیگر اعتراضات کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے میں دشواریوں کا سامنا ہے ‘ تاہم اس ساری صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پشاور میں غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والوں نے بارہا یہ مطالبات کر رکھے ہیں کہ انہیں غیر ملکی کرنسی میں کاروبار کرنے کی باقاعدہ اجازت دے کر لائسنس دیا جائے اور جس طرح کراچی ‘ لاہور ‘ اسلام آباد میں کرنسی ڈیلروں کو لائسنس دیئے گئے ہیں ‘ پشاور کے متعلقہ ڈیلروں کو بھی رجسٹر کرکے لائسنس دیئے جائیں تاکہ وہ بھی سکون کے ساتھ کاروبار کرتے ہوئے حکومت کو باقاعدہ ٹیکس بھی ادا کرکے اپنے کاروبار کو قانون کے دائرے میں لانے کے قابل ہو سکیں ‘ امید ہے حکومت اس مطالبے پر ہمدردانہ غور کرے گی۔
پراپرٹی کی نئی قیمتوں کا تعین
ایف بی آر نے صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں پراپرٹی کی نئی ویلیو ایشن کا تعین کرکے قیمتیں مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ‘ اس ضمن میں پشاور سمیت ایبٹ آباد اور ملکی سطح پر بھی کئی شہروں کی جائیدادوں کی قیمتوں کا تعین کیا جائے گا’ پشاور میں حیات آباد ‘ ڈیفنس ‘ گل بہار ‘زریاب کالونی ‘ قصہ خوانی ‘ خیبر بازار اور دیگر علاقوں کی جائیدادوں کی ویلیو ایڈیشن کی جائے گی تاکہ جائیدادوں کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمتیں مقرر کی جا سکیں ‘ ایف بی آر نے اس سلسلے میں متعلقہ کمشنروں کو ہدایات جاری کرکے خبردار کیا ہے کہ کوئی علاقہ ویلیو ایڈیشن سے رہ جائے تو ذمہ داری ان شہروں کے متعلقہ کمشنروں پرعاید ہو گی ‘ کسی بھی شہر اور اس کے مختلف علاقوں کی جائیدادوں کی قیمتوں کے تعین سے ان جائیدادوں کی خرید و فروخت پر حکومتی محاصل کا دار و مدار ہوتا ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ لوگ انڈر ہینڈ سودے کرکے متعلقہ حکام کے ساتھ ملی بھگت کرکے اصل ویلیو سے کہیں کم قیمت کا اندراج کرتے ہیں جس سے حکومت کے ریونیو میں کمی ہو جاتی ہے ‘ اس لئے اب بڑے چھوٹے شہروں میں مختلف علاقوں کی جائیدادوں کی مارکیٹ ویلیو کے تعین سے کم سے کم ریٹ کے مطابق حکومت کے خزانے میں جو ٹیکس جمع ہو گا اس کی مدد سے حکومت دیگر ترقیاتی منصوبوں کوپایہ تکمیل تک آسانی کے ساتھ پہنچا سکے گی۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!