2 108

مشرقیات

670ھ کا واقعہ ہے ، ایک دن قونیہ میں زبردست زلزلہ آیا ۔ لوگ خوف و دہشت سے چیخنے لگے ، پھر مسلسل چارد ن تک زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے جاتے رہے ۔شہر میں ایک قیامت سی برپا تھی قونیہ کے کسی با شندے کو بھی اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں تھا ۔
اس مسلسل اذیت ناک صورت حال سے گھبرا کر اہل شہر مولانا روم کی خانقاہ میں حاضر ہوئے اور آپ سے دعا کی درخواست کرنے لگے ۔ مولانا روم نے حسب عادت دل نواز تبسم کے ساتھ فرمایا ”زمین بھوکی ہے ، لقمہ تر چاہتی ہے ۔ حق تعالیٰ نے چاہا تو اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوگی ” ۔ پھر لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا” کوئی شخص ہراساں نہ ہو ، جس پر گزرنا ہے ، گز ر جائے گی ۔ ”انسانی ہجوم مطمئن ہو کر گھروں کو چلا گیا ۔ مولانا روم کے اس ارشاد کے بعد ہی زلزلہ تھم گیا تھا ۔ شہر قونیہ کی گم شدہ رونق لوٹ آئی تھی ۔ مگر دوسرے دن ایک خبر نے لوگوں سے یہ ساری خوشیاں چھین لیں ۔ مولانا روم اچانک شدید بیمار ہوگئے تھے ، پورا شہر عیادت کے لئے امڈ آیا ۔ بہترین طبیبوں نے علاج کیا ، لیکن مرض لحظہ بہ لحظہ بڑھتا گیا ۔ مریدوں اور خادموںنے رو رو کر کہا ” آپ کی دعائوں سے بے شمار مریضوں نے صحت پائی ہے ، آج آپ ہماری خاطر اپنی صحت کے لئے دعا فرما دیجئے ۔” مولانا نے عقید ت مندوں کی گفتگو سن کر دوسری طرف منہ پھیر لیا ، حاضرین سمجھ گئے کہ وقت آخر قریب آپہنچا ہے ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا دوسرے دن غروب آفتاب سے ذرا پہلے مولانا روم اپنے اللہ کی وحدانیت اورخاتم النبیینۖکی رسالت پر گواہی دیتے ہوئے رخصت ہوگئے ۔ قونیہ میں گھر گھر صف ماتم بچھ گئی ۔ ہزاروں انسان شدت غم میں ہوش و حواس کھو بیٹھے ، جنازہ اٹھا تو انسانوں کا ایک سیل رواں تھا ، جو اپنے روحانی پیشوا کو آہوں اور اشکوں کی آخری نذر پیش کرتا ہوا قبرستان کی طرف جارہا تھا ، بادشا ہ وقت بھی جنازے میں شریک تھا ۔ میت کے آگے سینکڑوں عیسائی اور یہودی بھی انجیل اور توریت مقدس کی آیات پڑھتے ہوئے چل رہے تھے ۔ ان غیر مسلموں کی آنکھیں اشکبار تھیں اور ہونٹوں پر جا نگداز نوحے تھے ۔ بادشاہ نے ان عیسائیوں اور یہودیوں کی یہ حالت زار دیکھ کر پوچھا ”تمہیں مولانا سے کیا نسبت ہے ؟ ”
جواب میں عیسائی علماء نے کہا” تمہاری طرح ہمار ا بھی محبوب ہے ۔ ” مولانا روم کی عظمت کی یہ ایسی روشن دلیل تھی ، جسے جھٹلا یا نہیں جاسکتا تھا ۔ انہیں زیر زمین سوئے ہوئے صدیاں گزر گئیں ، مگر آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ زندہ ہیں ۔ جب کوئی خوش الحان مثنوی مولانا روم کے اشعار پڑھتا ہے تو اہل دل یہی سمجھتے ہیں کہ مولانا ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال ذہنی اور روحانی اعتبار سے آخری سانس تک مولانا کے زیر اثر رہے ۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال نے اس مر د جلیل کو ” پیرروم ” کہہ کر پکارا اور ہمیشہ اس روحانی شاگردی پر نازاں تھے ۔(سیرت اولیا)

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب