3 54

ہاکروںکی بھی سنیں

اخبار فروش یونین پشاور کے صدر رضاخان اور سیکرٹری اطلاعات رحمن مہمند نے ایک بیان میں پشاور کے 800ہاکروں کا جو رونا رویا ہے وہ کرونا کی موجودہ صورتحال میں جائز ہے، ان دونوں نے گھر گھر جا کر اخبارات تقسیم کرنے والے ہاکروں کو بھی دوسرے متاثرین کیساتھ ریلیف پیکج میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخبار فروش بھی مزدور طبقہ ہے جو دیگر مزدوروں کی طرح محنت مزدوری کر کے روزی کماتے ہیں اس لئے ریلیف پیکج میں ان کو بھی شامل کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ اس مسئلے پر بات کی جائے پہلے مجھے اپنے چند اشعار جو تازہ ترین ہیں ان کو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی اجازت دیجئے۔
اے کرونا ترا ہو ستیا ناس
تونے روزی سے کر دیا خلاصّ
گھر میں آٹا، نہ دال نہ سبزی
ہائے مزدور، تیری حسرت ویاس
گھر سے نکلیں تو مار تی ہے
بلکہ مرغا بنیں گے یہ ہے قیاپڑس
اب تو پیکج میں بھی سفارش ہے؟
خاص لوگوں کو فکر، نا احساس
اخبار فروشوں یعنی ہاکروں کی فریاد اس حوالے سے بالکل درست ہے کہ فجر کے اوقات میں یہ گرم بستروں سے نکل کر اخبار مارکیٹ پہنچاتے ہیں، نہ سردی کی فکر، نہ بارش آندھی کا غم، انہیں احساس رہتا ہے تو صرف اس بات کا کہ یہ مارکیٹ سے اخبارات اور رسالے اُٹھا کر سائیکلوں یا موٹر سائیکلوں پر جلد سے جلد اپنے گاہکوں کے گھروں پر اخبار، رسالے، وغیرہ پہنچا دیں، اگرچہ ہر ہاکر کے پاس گنتی کے چند پکے گاہک بھی ہوتے ہیں جن کے دروازوں پر صبح صبح یہ لوگ مطلوبہ اخبارات چھوڑ آتے ہیں تاہم یہ ”ہوائی گاہکو” کیلئے روزانہ چند اضافی اخبارات بھی اُٹھا کر لے جاتے ہیں، جو ان کے سٹالوں کے سامنے گزرنے والے اتفاقیہ گاہک نقد رقم دیکر خرید لیتے ہیں، جن کی وجہ سے ان کی آمدن تھوڑی بہت بڑھ جاتی ہے مگر جب سے یہ کم بخت کورونا نمودار ہوئی ہے یہ جو ہر روز اضافی اخبارات یہ لوگ لاکر فروخت کرتے تھے اب اتفاقیہ گاہکوں کے گھروں سے نہ نکلے کی وجہ سے ان کی فروخت بند ہو چکی ہے جبکہ ہاکروں کو اپنے عارضی سٹال کھولنے میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اسی طرح جو ہاکر کچہری عدالتوں میں اخبارات بیجتے تھے یا پھر ٹرانسپورٹ اڈوں پر گھوم پھر کر اور ہسپتالوں میں جا کر اخبارات اور رسالے فروخت کر کے رزق کماتے تھے ان مقامات پر ہو کا عالم ہونے کی وجہ سے ایسے ہاکر تو مکمل طور پر بیروزگار ہوچکے ہیں، ایسے حالات میں جبکہ کچھ کی آمدن میں کمی اور کچھ بالکل ہی بیروزگار ہوگئے ہیں ان کو بھی ریلیف پیکج میں شامل کیا جانا بہت ضروری ہے مگر گزشتہ روز وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جن اقدامات کا اعلان کیا ہے اس پر رائے زنی سے ممکن ہے کچھ حلقوں کی جبینوں پر بل پڑ جائیں اور ماضی قریب میں جس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بلدیاتی اداروں کے چیئرمینوں اور دیگر ممبران پر عوام کیلئے جاری ہونے والی امداد، جن میں سلائی مشینیں اور دیگر ایشیاء شامل ہوتی تھیں، میں مبینہ خوردبرد کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں اگر وزیراعظم ریلیف پیکج میں بھی ایسے ہی روئیے دیکھنے کو ملے اور اصل حقداروں کو محروم رکھا گیا اور سفارشیوں کو امداد سے متمتع کئے جانے کی صورتحال سامنے آئی تو پھر اس صورتحال سے غریب لوگوں کے گھروں میں اس وقت بھوک کی جو صورتحال ہے جاری رہی تو اس سے ریلیف پیکج کے مقاصد فوت ہو جائیں گے۔ امیر خسرو نے صدیوں پہلے کیا خوب کہا تھا کہ
کھیر پکائی جتن سے، چرخا دیا جلا
آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا
ماضی کے انہی تلخ تجربات کی وجہ سے ہی سوشل میڈیا پر مطالبات سامنے آرہے ہیں کہ ریلیف پیکج کی تقسیم کا کام سیکورٹی اہلکاروں کی سخت نگرانی میں انجام تک پہنچایا جائے تاکہ کوئی حقیقی ضرورت مند محروم نہ رہے اور امداد اصل حقداروں کو پہنچ جائے۔
بات اخبار فروش یونین کے عہدیداروں کے مطالبے سے چلی تھی اس لئے یہ معاملہ صرف پشاور ہی نہیں صوبے کے دیگر اضلاع، شہروں، دیہات میں کام کرنے والے تمام ہاکروں کے حوالے سے بھی سوچا جائے، پشاور، ایبٹ آباد، مردان، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، نوشہرہ تو پھر نسبتاً بڑے علاقے ہیں جہاں کے ہاکر عام دنوں میں عزت کی روٹی کما کر اپنے خاندان کی کفالت کر لیتے ہیں جبکہ چھوٹے چھوٹے گاؤں اور دیہات کے ہاکر تو عام دنوں میں بھی اتنا نہیں کماتے کہ گزر اوقات کر سکیں اس لئے پورے صوبے کے اخبار فروشوں کو امدادی پیکج میں شامل کیا جائے تاکہ انہیں کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ رہے۔ ان دنوں پاکستان بھر سے اس کورونا وائرس کے حوالے سے شعرائے کرام جو شاعری کر رہے ہیں ان میں سے چند نمونے بھی ملاحظہ فرمایئے۔ ڈاکٹر اسد مصطفیٰ نے اپنی تازہ غزل میں کہا ہے
شہ مردہ ہیں مگر عہد بشر زندہ ہے
سجدہ شکر ابھی دل کا نگر زندہ ہے
ایک جرثومے نے تاریخ بدل کے رکھ دی
اشک پتھر ہیں، کہیں دیدۂ تر زندہ ہے
اپنے سائے سے بھی ملتے ہوئے گھبراتا ہوں
مجھ میں پنہاں ہے کوئی خوف کہ ڈر زندہ ہے
وصی شاہ نے اپنے اشعار میں لوگوں کو اُمید کا راستہ دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ
بے قراری میں صدا دے میں تری سن لوں گا
رو کے بس ہاتھ اُٹھا دے، میں تری سن لوں گا
ایک جرثومے نے گر یاد دلا دی تو مجھے
بس یہی رو کے بتا دے، میں تری سن لوں گا

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں