5 3

نمونیا ہوگا تو علاج کروں گا

نسان کی بنیادی ضروریات میں تعلیم اور صحت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ تعلیم کے زیور کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ہے اور ‘جان ہے تو جہان ہے’ کے مصداق صحت کے بغیر انسانی زندگی کا تصور ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں نظام صحت کا ڈھانچہ تین ستونوں پر استوار ہے۔ اول، افراد کی بنیادی صحت کیلئے بنیادی ہیلتھ یونٹس (بی ایچ یوز) اور دیہی ہیلتھ سنٹر (آر ایچ سنٹر) قائم کئے گئے ہیں جو بالترتیب پچیس ہزار اور ایک لاکھ کی آبادی کی خدمات پر مامور ہیں۔ ملک بھر میں ان مراکز کی تعداد بالترتیب پانچ ہزار اور چھ سو کے لگ بھگ ہے۔ زمینی حقائق دیکھے جائیں تو ان مراکز سے مستفید ہونے والوں کا محض فرضی ڈیٹا روزانہ کی بنیادوں پر کاغذات کی زینت بنتا ہے جبکہ حقیقت میں مریض سوائے ایمرجنسی کے یہاں کا رُخ نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ ملک کی زیادہ تر آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان مراکز پر طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریض شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ دوم، افراد کی صحت کے حوالے سے دوسرا ستون ثانوی صحت کی دیکھ بھال ہے جس کیلئے تحصیل ہیڈکوارٹر اور ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال موجود ہیں جو بالترتیب پانچ سے دس لاکھ اور دس لاکھ سے تیس لاکھ افراد پر محیط آبادی کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان ہسپتالوں کی تعداد136 اضلاع اور اُن کی ملحقہ تحصیلوں میں ایک ہزار کے قریب ہے اور قلیل بجٹ کے باعث ان کی حالت زار سالوں پرانی بوسیدہ عماراتوں کی طرح مخدوش ہے جو کسی بھی وقت آن گر سکتی ہیں۔ سوم، افراد کی صحت کے حوالے سے تیسرا ستون ٹیچنگ اور خصوصی ہسپتال ہیں۔ یہاں گزارے لائق سہولیات کی بدولت مریضوں کی کافی بھیڑ نظر آتی ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کیلئے نظام صحت کا یہ ڈھانچہ عرصہ دراز سے موجود ہے، اگر حکومت واقعی اس نظام میں بہتری کی خواہاں ہے تو پھر صحت کیلئے مختص بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا اور ان تین ستونوں کے بجٹ استعمال میں ایک منصفانہ تقسیم لانی پڑے گی تاکہ مریضوں کی بھیڑ میں عدم توازن پیدا نہ ہو اور آئین کے آرٹیکل38 کے تحت ہر شہری کو بلاامتیاز مذہب، ذات، عقیدہ اور نسل کے زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمول صحت اور علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں مل سکیں۔ ہماری حکومتوں کی صحت بارے سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ 2017-2018 کے وفاقی بجٹ میں صحت کیلئے 48ارب روپے مختص کئے گئے تھے جبکہ بجٹ 2018-2019 میں صحت کیلئے پچیس ارب روپے یعنی تیئس ارب روپے کی کٹوتی کیساتھ مختص کئے گئے اور جس میں مریضوں کے علاج کیلئے رقم نہایت قلیل بنتی ہے۔ اس کمزور اور لاغر نظام صحت کیلئے کورونا وائرس دروازے پر دستک دیئے کھڑا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین کے علاوہ دیگر ممالک میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے واقعات (تاحال چودہ ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں) کے تناظر میں اسے عالمی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ ادارے کی جانب سے عالمی ایمرجنسی کیلئے معیار چار سوالات ہیں جن میں اگر دو کے جوابات مثبت میں آجائیں تو عالمی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کیا بیماری نئی یا غیرمعمولی ہے۔ دوسرا اور تیسرا سوال بیماری کے اسی علاقے اور دیگر ممالک میں پھیلاؤ سے متعلق ہے۔ چوتھا سوال یہ ہے، بیماری سے ہلاکتوں کی شرح کیا ہے؟ جہاں تک کورونا وائرس سے متعلق ان چار سوالات کا تعلق ہے تو صدفیصد جوابات مثبت میں ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے عالمی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ادارے کے چیف نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس ان ممالک میں زیادہ پھیل سکتا ہے جہاں طبی نظام کمزور ہے۔ شاید اسی بات کو مدنظر رکھ کر وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ ”عالمی ادارہ صحت نے تجویز دی ہے کہ چین سے لوگوں کو باہر نہ نکالا جائے۔ اگر ہم غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے وہاں سے لوگوں کو نکالنا شروع کر دیں تو یہ وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے گی” گزشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں اسی موضوع پر گرماگرم بحث ہوئی۔ حزب اختلاف کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ حکومت دیگر ممالک کی طرح ووہان شہر میں زیرتعلیم طلباء کو واپس وطن لانے کیلئے انتظامات کرے تاکہ طلباء اور اُن کے پریشان حال والدین ورشتہ دار سکھ کا سانس لے سکیں جبکہ حکومتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ ووہان شہر میں پھنسے طلباء کو واپس پاکستان اس لئے نہیں لایا جارہا ہے کہ وہاں علاج کی بہترین سہولیات موجود ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق صرف چار پاکستانی طالب علم اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کی صحت بہتری کی جانب گامزن ہے، یعنی باقی رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ طلباء محفوظ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے صحت مند طلباء اور شہریوں کو ووہان شہر سے واپس کیوں نہیں لارہے ہیں۔ خدانخواستہ ہم اس بات کا انتظار تو نہیں کر رہے ہیں کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں کیونکہ چین میں اس کا علاج اور سہولیات میسر ہیں۔ کہتے ہیں کہ سخت ٹھنڈ میں ڈاکٹر کے پاس سینے کے انفیکشن میں مبتلا ایک مریض آیا۔ ڈاکٹر نے سرسری معائنے کے بعد مریض سے کہا کہ وہ گھر جا کر ٹھنڈے پانی سے نہائے۔ مریض نے سردی سے کانپتے ہوئے کہا ”ڈاکٹر صاحب! ٹھنڈے پانی سے نہانے کے بعد تو مجھے نمونیا ہوجائے گا” ڈاکٹر نے وضاحت کرتے ہوئے مسکرا کرکہا کہ میں نمونیہ کا ڈاکٹر ہوں، پس آپ کو نمونیا ہوگا تو ہی علاج کروں گا۔ کہیں ہماری حکومت ووہان شہر میں پھنسے ہوئے طلباء کیساتھ نمونیے کا یہ کھیل تو نہیں کھیل رہی ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد