4 53

یہ قید سکھا دیتی ہے آداب محبت

ج ہم سب کی مثال پنجرے میں قید اس پرندے جیسی ہے جسے پنجرے کی حدود میں پھدکنے کی اجازت تو ہوتی ہے لیکن وہ باہر نہیں آسکتا، پھر ہوتا یہ ہے کہ کھلی فضاؤں میں اُڑنے والے آزاد پنچھی قید کے عادی ہوجاتے ہیں۔ قیدی قیدی میں بھی فرق ہوتا ہے کچھ قیدی تو حالات کیساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں لیکن بعض ایسے آزاد منش ہوتے ہیں جنہیں ایک پل چین نہیں آتا جو پنجرے کی سلاخیں توڑ کر کھلی فضاؤں میں اڑنے کیلئے بیتاب ہوتے ہیں، بقول ڈاکٹر خالدہ انور
یہ قید سکھا دیتی ہے آداب محبت
پنجرے میں پرندے بھی شرارت نہیں کرتے
قیدی کے حوالے سے ایک بات کا جاننا بہت ضروری ہوتا ہے کہ اسے کن لوگوں کی صحبت میسر ہے بعض خوش نصیب تو وہ ہوتے ہیں جن کی زندگی کا ساتھی نرم مزاج اور حالات کیساتھ سمجھوتہ کرنے والا ہوتا ہے، یہ وہ گاڑی ہوتی ہے جس کے دونوں پہئے خوش اخلاق، ذہین اور حالات کی نزاکت کا اچھی طرح ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں، ان کی گاڑی ہر قسم کی سڑک پر رواں دواں رہتی ہے یہ اپنی راہ میں آنے والے گڑھوں کھڈوں سے بے نیاز اپنا سفر جاری رکھتے ہیں، مسئلہ تو ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کی شریک حیات تند وتیز مزاج کی مالک ہوتی ہے، جسے گھر بیٹھنے والے مرد ایک آنکھ نہیں بھاتے، ہر وقت جلی کٹی سنانا جس کی فطرت ثانیہ ہوتی ہے۔ یہ حوا کی وہ بیٹی ہوتی ہے جسے ہوا سے بھی لڑنے کا شوق ہوتا ہے، شادی کے بعد کچھ دنوں تک اس قسم کے گھروں میں ہر وقت پانی پت کا میدان گرم رہتا ہے، دونوں طرف سے میزائل داغے جانے کا عمل جاری رہتا ہے، ہر بات میں کاٹ ہر بات میں فریق مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، چن چن کر ایسے فقروں کا ستعمال کیا جاتا ہے جنہیں سن کر چاروں طبق روشن ہوجائیں! کچھ عرصے بعد روز روز کی بک بک سے تنگ آکر آخرکار ایک فریق ہتھیار ڈال دیتا ہے، عام طور پر یہ بابا آدم کا بیٹا ہی ہوتا ہے بس اس کے بعد بقول شاعر یہ کیفیت ہوتی ہے
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پہ گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی میرے واقعات سے
معاف کیجئے گا آگے بڑھنے سے پہلے اس کالم کی شان نزول بھی سن لیں، تھوڑی دیر پہلے ہمیں ایک مہربان کا فون موصول ہوا یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ایک قیدی کیلئے کسی سے بات چیت کرنا کتنا سودمند اور حوصلہ افزا ہوتا ہے چاہے بات چیت سیل فون کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، وہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ بات چیت کے بہانے وہ اپنے دل کے پھپھولے جلانا چاہتے تھے، کسی کی دکھ بھری داستان سن لینے کو ہم عبادت کے درجے میں شمار کرتے ہیں یقین کیجئے اپنا حال دل سناتے ہوئے ان پر رقت طاری ہوگئی ان کے الفاظ میں سن لیں!
یار میرا تو گھر میں بیٹھے بیٹھے برا حال ہوگیا ہے، دکان بند ہے، ذرائع آمدنی بند ہوچکے ہیں، گھر میں تمہاری بھابھی تگنی کا ناچ نچارہی ہے، بات بات پر ٹوکتی ہے، یہ کرو یہ نہ کرو، یہاں بیٹھو یہاں مت بیٹھو، تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی ذرا باہر کا ایک چکر لگا آؤ، میں نے اس نیک بخت سے کہا شاید تم نے ابھی تک وہ ویڈیوز نہیں دیکھیں جن میں پولیس والے ہم جیسے شریف لوگوں کو خدا کی زمین پر ہمارے ہی فائدے کیلئے نقل وحرکت کی اجازت نہیں دیتے، اتنی زیادہ پوچھ گچھ کرتے ہیں کہ عزت سادات خطرے میں پڑ جاتی ہے، نیک بخت مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، میرے لئے گھر بیٹھنا ہی بہتر ہے اور دعا کر کہ اللہ کریم ہمیں اس موذی وائرس سے اپنی امان میں رکھے! یار حد ہوتی ہے بے حسی کی وہ ہماری بات سن کر مسکراتے ہوئے کہنے لگی اللہ تعالیٰ کی شان ہے تم مردوں نے یہ دن بھی دیکھنے تھے، بس گھر کے کسی کام میں مداخلت نہ کرو، اندھے اور گونگے بن کر بیٹھے رہو، مجھے تو وہ دن بھلائے نہیں بھولتے صبح سویرے گھر سے نکل کر دکان کھولنا سب سے پہلے قہوہ پینا، پھر آس پاس کے دکانداروں سے گپ شپ لگی رہتی، دکانداری جیسی بھی ہوتی وقت اچھا گزر جاتا، شام کو تھکے ہارے گھر لوٹتے بستر پر گرتے ہی سو جاتے۔ ہم نے اپنے دوست کی باتوں میں چھپے ہوئے درد کو محسوس کرلیا تھا، اگر ہم انہیں کچھ روایتی قسم کے کتابی مشورے دیتے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں تھا مثلاً یار ہمت سے کام لو چند دنوں کی بات ہے یہ وبا کے دن بھی گزر جائیں گے اور یہ کہ زندگی میں اچھے برے دن آتے رہتے ہیں، مصیبت سے گھبرانا سب سے بڑی مصیبت ہے، ہمت کرو یہی تو وہ وقت ہے جب آپ نے پُراُمید رہنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے برعکس ہم نے اپنی داستان غم سنانا شروع کر دی اپنی بوریت اور اپنے اوپر ہونے والے گھریلو مظالم کچھ اس انداز سے بیان کئے کہ وہ ہماری آواز کی رقت سیل فون پر بھی محسوس کررہا تھا، یقین کیجئے ہم نے جیسے اس کے زخموں پر پھاہا رکھ دیا اسے سب سے بڑھ کر خوشی اس بات کی تھی کہ وہ اکیلا قیدی نہیں ہے اور بھی بہت سے قیدی اسی قسم کے رنج والم میں مبتلا ہیں۔ ہم نے سیل فون پر ہی اس کی ہلکی ہلکی طمانیت بھری مسکراہٹ محسوس کرلی! اس نے حیرت بھری خوشی کیساتھ ہم سے دو تین سوال پوچھے جن کا جواب ہم نے وہ دیا جو وہ سننا چاہتا تھا، اس کے بعد وہ بڑے ہلکے پھلکے انداز میں ہمارے ساتھ ہمدردی جتانے لگا بس ہمیں خوشی اس بات کی تھی کہ ہماری داستان غم نے اسے مطمئن کر دیا تھا۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ