logo 10

مشرقیات

شیخ نظام الدین کا واقعہ ہے کہ کچھ لوگ حضرت کو بد نام کیا کرتے تھے ، اس کی وجہ صرف حسد تھی ، کسی نے کہا کہ یہ کیسے بزرگ ہیں ، بزرگی کی تین علامتیں ہیں ، ان کے اندر وہ نہیں پائی جاتیں ۔ پہلی علامت یہ ہے کہ اس کی روزی حلال ہو ، یہ تو خا نقاہ میں پڑے پڑے کھارہے ہیں ، دوسری کوئی نہ کوئی بیماری رہتی ہو ، یہ تندرست اور ہٹا کٹا ہے اور اس کو لوگ برا بھی کہتے ہوں ، ان کی تو لوگ تعریف کرتے ہیں۔ یہ بات حضرت نظا م الدین کو پہنچ گئی ، حضرت نے اس خیال سے کہ یہ شخص بد گمانی کے مرض میں مبتلا ہے ، یہ دور کرنا چاہئے ، ان کو ایک مرتبہ بلایا اور تنہائی میں گفتگو کی اور فرمایا کہ جہاں تک بیماری کا تعلق ہے ، مجھے بر سہا برس سے ایک نا سو ر ہے ، جب اس میں ٹیس اٹھتی ہے ، اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جان نکل جائے گی اور دو باتوں کا جواب کل دوں گا ۔ حضرت نے ایک صاحب سے مضاربت کا معاملہ کر رکھا تھا ، وہ شخص جنگل کے رہنے والوں سے لکڑیاں خرید کر لاتے اور بازار میں فروخت کرتے ۔ اس کی آمدنی حضرت شیخ اور وہ دونوں تقسیم کرلیتے ، اس شریک سے حضرت نے فرمایا کہ کل میں جنگل جا کر لکڑیاں لائوں گا ، ایک باندی بھی ساتھ لے لی اور جنگل سے لکڑیاں لے کر بازار سے نکلے ، بازار والے کہہ رہے تھے کہ دیکھو! مکار جا رہا ہے ، سر پر لکڑی کا بوجھ لئے جا ر ہاہے تاکہ لوگ بزرگ سمجھیں اور ایک چھو کری ساتھ ہے۔دوسرے دن جب معترض کو بلا یا تو فرمایا کہ آپ کی دونوں باتوں کا جواب ہوگیا ، یہ میری روزی ہے ، مضا ربت پر کام کر رہا ہوں ، جو ملتا ہے قناعت کرتا ہوں، خانقاہ میں جو پکتا ہے ، وہ یہاں کے ذاکرین کے لئے ہے ، میرے لئے نہیں اور یہاں جو لوگ آتے ہیں ،وہ تو تعریف ہی کریں گے ، جو نہیں آئے ، ان کا حال دیکھ لیا مجھ کو کیا کہہ رہے تھے ۔ اس شخص کی آنکھ کھل گئی اور بد گمانی سے توبہ کی ۔
ربیعتہ النظربن ابو نواز (بادشاہ یمن) کالقب ”تبع” تھا ۔ اس نے اپنے لڑکے سے کہا کہ تم یثرب میں رہ کر وہاں کے علمائے یہود سے اپنے علم کی پیاس کو بجھانا ، تاکہ یمن کے اوباش تمہیں جاہل نہ کہیں ، یہ کہہ کر اپنے لڑکے کو یثرب میں علمائے یہود کے پاس چھوڑ دیا ، اتفاق سے اس لڑکے کو کسی نے قتل کر دیا ، اس کی اطلاع جب بادشاہ تبع کو ملی تو وہ آگ بگولہ ہوگیا ، کیو ں نہ ہوتا جبکہ وہ طاقتور بادشاہ تھا ، پھر اس نے ایک بڑے لشکر کو لیکر یثرب پہ چڑھائی کی ،کئی افراد کو قتل کر دیا اور بڑی تباہی مچا ئی ، صبح سے شام تک جنگ چلتی رہتی ۔ جب شام ہو جاتی تو لڑائی رک جاتی اور اہل یثرب اور بادشاہ کے سپاہی اپنے اپنے پڑائو میں چلے جاتے تو یثرب کے لوگ بڑا پکوان تیار کر کے تبع کے سپاہیوں کی مہمان نوازی کرتے اور کھانا بھیجتے ۔
یہ کہتے کہ یہ لوگ اتنی دوریمن سے جنگ کے لئے آئے ہیں ، پتہ نہیں ان کے پاس کھانا ہے بھی یا نہیں ، لڑائی اپنی جگہ ، مہمان نوازی اپنی جگہ ۔ مہمان نوازی کی یہ ایک نرالی مثال ہے کہ اپنے دشمن کی خاطر مدارت کرتے ۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی