عوام پر ایک اور پٹرول اور بجلی بم حملہ

حکومت نے ایک بار پھر بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے ۔پٹرولیم مصنوعات میں دس روپے تک کا اضافہ ہوگیا اور بجلی بم بھی فائل کی صورت وزیر اعظم کی میز پر دھری ہوئی ہے ۔اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے اسے ایک اور منی بجٹ قرار دیا ہے۔پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں نے ایک لمبی چھلانک لگا لی ہے ۔حکومت نے اس سال کو معاشی بہتری اور عام آدمی کی زندگی میں ریلیف کا سال قراردیا ہے مگر ریلیف تو کیا ملنا تھا اب عوام کو مہنگائی کے طوفان میں ریکسیو کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ اپنے قیام کے پہلے سال ہی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چھ بار ،گیس کی قیمت میں چار بار اور بجلی کی قیمت میں سات بار اضافہ کیا ۔جس کے بعد یہ سلسلہ کہیں بھی نہ رک سکا ۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا تحریک انصاف کی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ اصل خبر یہ ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی بطو ر وزیر خزانہ مدت پوری ہورہی ہے اور اب انہیں مشیر خزانہ بنایا جارہاہے اور پھر خیبر پختونخوا سے سینیٹ کا الیکشن لڑوا کر دوبارہ وزیر بنایا جائے گا۔ اس مشق فضول سے عوام کا لینا دیناہے ۔عوام کے دن پھرنے کے آثار تو دور دور تک نظر نہیں آتے۔ ابھی تک عمران خان کی معاشی ٹیم اپنی مہارت کا کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکی ۔ باہر سے درآمد کی گئی معاشی ٹیم بھی عام آدمی کی زندگی میں بہتری کا کوئی کمال نہیں دکھا سکی ۔حقیقت یہ ہے کہ ملک کے معاشی معاملات عملی طور پر آئی ایم ایف نے اپنے کنٹرول میں لے رکھے ہیں۔حکومت کے دعوے اور باتیں اب عمل میں ڈھلنے کا تقاضا کررہی ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنرل مشرف کی ق لیگ کی حکومت کے بعد سے معیشت کو پائیدار اور ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کرنے کی بجائے ”ڈنگ ٹپائو ” رجحان اور رواج عام ہو کر رہ گیا ۔ملکی معیشت کو مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کی بجائے دن گزارنے کی اس پالیسی نے پاکستان کی معیشت کو لاغر اور بیمار کردیا ہے ۔اب کوئی دست ِمسیحا ہی زبوں حالی کی ان پستیوں سے ملکی معیشت کو دوبارہ بہتری کی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے ۔یہ روایتی طور طریقوں کا معاملہ نہیں رہا ایک بھرپور آپریشن کا متقاضی ہے ۔ملک کی بڑی جماعتیں ابھی اس حوالے سے کوئی ٹھوس بات نہیں کر اسکیں ۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ تو ایڈہاک ازم کے طور پر ملکی معیشت کو چلانے کی ذمہ دار رہی ہیں ان سے اب توقع ہی عبث ہے مگر تحریک انصاف بھی ملکی معیشت کو سہار ا دینے کے حوالے سے مخمصے کا شکار نظر آتی ہے ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کو ملک کے معاشی حالات کی وجہ قرار دیا جارہا ہے یہ عذر کچھ عرصہ تک تو چل سکتا ہے مگر تادیر ماضی کے حکمرانوں کو دوش دے کر عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا ۔ پٹرولیم مصنوعات کے مہنگا ہونے کا مطلب اس ایک شے کی مہنگائی نہیں بلکہ اس کا اثر معاشرے پر بھی پڑتا ہے اورایک عام آدمی کی معیشت اورگھریلو بجٹ بھی متاثر ہوتا ہے ۔ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جاتے ہیں۔جس سے اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں ۔ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لئے ایک اور منی بجٹ ہی ثابت ہوتا ہے۔اس وقت آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی ادارے امریکہ کے زیر اثر ہیں اور امریکہ پاکستان سے ناخوش ہے جس کا ثبوت ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ملک قراردیتے ہوئے اس کا نام گرے لسٹ میں شامل کرنا ہے ۔یہ ساری لسٹیں اس وقت صرف پاکستان کے لئے کھلی ہوئی ہیں اور ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف،حقوق انسانی کا عالمی کمشن ،عالمی عدالت انصاف ،اقوام متحدہ کے زیر اثر دوسرے اداروں کا پاکستان سے موڈ بگڑا ہوا ہے ۔پانی کا تنازعہ ہو یا کلبھوشن کا معاملہ ،انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں یا دہشت گردی سے متعلق دوسرے معاملات عالمی طاقتوں اور اداروں کا پلڑا پاکستان کی مخالفت میں جھکا ہوا نظر آتا ہے ۔جب کسی ملک کو معتوب بنانا ہو تو پھر اس کے خلاف الزامات کی اس قدر گرد اُڑائی جاتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا ممکن ہی نہیں رہتا ۔عراق کی کیمیائی ہتھیاروں کی افسانہ طرازی کا ایک زمانہ گواہ ہے ۔اس کے بعد بھی بہت سے ملکوں کا گھیرائو پروپیگنڈے کے زور پر یوں کیا جاتا ہے کہ اس ملک کاسچ نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتا ہے ۔پاکستان اس وقت شدید معاشی دبائو کا شکار ہے ۔”ہرگز نہیں کے جملے کے بعد اس صورت حال میں بہتری محال تھی ۔حکمرانوں نے آزاد روی کی سز ا کا مقابلہ کرنے کے لئے متبادل پالیسی کیا اپنائی مگر اس کا حل قیمتوں میںا ضافہ ہی نہیں۔ملک کی معاشی حالت کو موجودہ انجام سے دوچار کرنے والے حکمران طبقات اور اشرافیہ کے کالے کرتوتوں کی قیمت عام آدمی سے وصول کرنا نا انصافی ہے ۔انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے ملک کی دولت لوٹ کر امریکہ ،برطانیہ ،سویزر لینڈ ،ہانگ کانگ ،سنگا پور ،دوبئی ،جنوبی افریقہ میں دولت کے پہاڑ کھڑے کئے ہیں اور قرض معاف کرکے ڈکار تک نہیں لی ملکی معیشت کی زبوں حالی کی ساری قیمت انہی سے وصول کی جانی چاہئے تھی مگر اس کام کے لئے قائم ادارے بھی ابھی تک ناکام ہی نظر آتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''