نورمقدم کیس

نور مقدم کیس، ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت مسترد ، اہلیہ کی منظور

ویب ڈیسک : نور مقدم قتل کیس میں سپریم کورٹ نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت مسترد اور والدہ عصمت آدم جی کی منظور کرلی۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت میں مسلمان لڑکی کا برقعہ سرعام اتروادیا گیا

پیر کو نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔

وکیل درخواست گزار خواجہ حارث نے درخواست ضمانت کے حق میں دلائل دیئے کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی مقدمے میں نامزد نہیں تھے،مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے پولیس کو بیان کے بعد والدین کونامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ کال ریکارڈز کے مطابق عصمت جعفرنے مرکزی ملزم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ ملزم اور اس کے والدین کے کال ریکارڈز اور رابطے پردلائل دیں۔

وقوعہ کے روز درخواست گزاروں کی جانب سے ملزم کو کئی کالزکی گئیں۔جسٹس بندیال نے کہاکہ اس موقع پرضمانت کا فیصلہ کرنے سے مرکزی کیس متاثرہوسکتا ہے۔

عصمت جعفرکے اس واقعے میں کردارسے متعلق دلائل دیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ قتل کا وقت کیا تھا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ کے مطابق شام6بجکر 35 سے ساڑھے 7 کے درمیان قتل ہوا۔

مزید پڑھیں:  پاکستان اور ایران کا تجارتی حجم 10ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق

جبکہ ایف آئی آر میں قتل کا درج وقت رات 10 بجے کا ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اس موقع پرضمانت دے کراستغاثہ کا پورا کیس فارغ نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل درخواست گزارخواجہ حارث نے کہاکہ ملزمان پر صرف قتل چھپانے کا الزام ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ظاہر جعفر کی دماغی حالت کو ٹیسٹ کیا گیا ہے؟وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ملزم کی ذہنی حالت سے متعلق کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا۔

وکیل مدعی شاہ خاور نے کہا کہ ملزم کا صرف منشیات کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے،ذہنی کیفیت جانچنے کیلیے کوئی معائنہ نہیں ہوا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ کیس میں منشیات کا ذکربھی ہے۔

کیا ملزم منشیات پر تھا؟جسٹس قاضی محمد امین نے کہاکہ ملزم انکار کرے تو ذہنی کیفیت نہیں دیکھی جاتی،ذہنی کیفیت کا سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ ممکن ہے فون پر والد قتل کا کہہ رہا ہو، یہ بھی ممکن ہے روک رہا ہو،وکیل خواجہ حارث نے اس پر کہاکہ ممکن تو یہ بھی ہے کہ بیٹا باپ کو سچ بتا ہی نہ رہا ہو۔

مزید پڑھیں:  سائفر کیس میں شک کا فائدہ ملزمان کو جائے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ٹرائل کی کیا صورتحال ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ فرد جرم عائد ہوچکی، 8 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل ہونے کے شواہد نہیں، وکیل خواجہ حارث نے بتا یا کہ ماں نے 2 ٹیلیفون کالز گارڈ کو کی تھیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ یہ ایک سفاک قتل ہے جس کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے،اتنے سفاک قتل میں تمام پہلوئوں کو دیکھتے ہوئے ضمانت کس بنیاد پر ہو؟وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ کال ریکارڈز کی قانونا کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

جسٹس منصور نے کہاکہ اگر کال ریکارڈز بھول بھی جائیں تو ذاکر جعفر نے قتل کی پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟ جسٹس قاضی محمد امین نے کہاکہ وقوعہ کے بعد بھی ملزمان کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ والدہ کی بھی 11 کالز کا ریکارڈ موجود ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ جائزہ لیں گے کہ پولیس کو بلانے کی بجائے تھراپی ورکس کوکیوں کہا گیا؟اس موقع پر سپریم کورٹ نے ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت سماعت میں وقفہ کر دیا جس کے بعد والدہ کی ضمانت منظور کرلی گئی۔