اس بار کر سکوں گا میں کس کس سے اختلاف

یادش بخیر(مگر اب خیر کہاں؟) بلکہ بقول ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے ‘ یعنی جب روٹی پورے پائو بھر کی ہوتی تھی ‘ پولی پولی ‘ رنگ اور خوشبو ایسی کہ بندہ بناء سالن مزے لے کر ایک روٹی تو یونہی کھا جاتا تھا ‘ اور یہ پائو وزن بھی کلو کے حساب سے نہیں بلکہ پکے وٹے ہوتا تھا یعنی آج کے ڈھائی سو گرام نہیں بلکہ تین سو گرام ‘ اوپر سے قیمت بھی دو آنے ‘ جن کا اب نہ کوئی وجود ہے نہ آج کی نسل یہ جانتی ہے کہ آنہ کس چڑیا کا نام ہے؟ بس آسان طریقے سے یہ سمجھا دیتے ہیں کہ ایک روپے میں آٹھ دونیاں ہوتی تھیں اور سولہ آنے ‘ جن کے حوالے سے اردو زبان کا ایک محاورہ بھی ہے کہ ”سولہ آنے درست” خیر جانے دیں ‘ محاوروں میں پڑ گئے تو بات کسی اور سمت رخ کر لے گی’ اور پائو بھر کی روٹی ہی تک محدود رہتے ہیں ‘ پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی بے چاری(روٹی) کو کہ سمیٹتے سمیٹتے آج کسی جوگے نہیں رہی ‘ اور قیمت بھی۔۔۔ پر نہیں تو پر پرواز مگر(رکھتی) ہوں کا بیانیہ لیتے ہوئے بلندی سے ہاتھ ہلا ہلا کر عوام کے زخموں پر نمک پاشی کر کا باعث ہے ‘ ایسی حالت میں اگر ساتھ ہی ہم یہ بھی بتا دیں کہ ایک روپے میں اصولی طور پر آٹھ روٹیاں بنتی تھیں مگر نانبائی دس روٹیاں خوشی سے دے دیتے تھے تو آج کی نسل حیرت سے آنکھیں پھاڑے کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ ہم بھی سیاسی بیان بازی پر اتر آئے ہیں ‘ حالانکہ ہماری نسل کے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہم ان سیاسی رہنمائوں کی طرح آج کی صورتحال کا سارا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اب تو تمہیں بھی آئے ہوئے تین سال سے اوپر ہو چکے ہیں تو یہ چورن کب تک بیچو گے ‘ معاف کیجئے گا بات پھر الجھ رہی ہے اس لئے واپس موضوع کی طرف آتے ہیں اور یادش بخیر ہی میں پناہ لیتے ہیں ‘ تو وہ جو ہم ذکر بلکہ ذکر خیر کر رہے تھے پائو بھر وزن کی روٹی کا تو کسی کی نظر بد نے اسے ایسی بیماری میں مبتلا کر دیا کہ روز بروز سمیٹتے سمیٹتے بالآخر آج کی بے وقعتی کا شکار ہو گئی ‘ سو ڈھائی سو گرام سے 220 گرام ‘ پھردوسودس ‘ اور دوسو ‘ 190گرام سے پھسلتے پھسلتے آج کہیں کی نہیں رہی ‘ اب معلوم نہیں کہ بے چاری روٹی کا کیا حال ہے ‘ کہیں وزن کچھ ‘ کہیں کچھ ‘ بلکہ اب تک مالکان یعنی نانبائیوں نے ایک بارپھر غوغا آرائی شروع کر دی ہے کہ قیمت بڑھانے کی اجازت دی جائے ‘ مگر انتظامیہ نے اس مطالبے پر ”ایبسالوٹلی ناٹ”کا ٹیگ لگا کر عوام کو ”خوش”کرنے کا فیصلہ کیا ہے ‘ تاہم جس بات کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ حسب سابق ایک بار پھر”سمجھوتہ” وزن پر ہی ممکن ہو سکے گا ‘ یعنی ماضی میں جب بھی نان فروشوں نے روٹی کی قیمت بڑھانے یا پھر وزن کم کرنے کے مطالبات کئے تو انتظامیہ”ٹس سے مس” نہ ہونے کا ڈرامہ رچائے ہوئے پہلے چند نانبائیوں کو ”کم وزن” کے الزام میں گرفتار کر لیتی تھی ‘ جس پر عوام سکھ کا سانس لیتے تھے مگر پھر بقول شاعر
ہونا ہے وہی جو کہ مقدر میں لکھا ہے
لیکن وہ مرے خواب ‘ مرے خواب ‘ مرے خواب
یعنی چند روز بعد یا تو قیمت میں اضافے یا پھر وزن میں کمی پر سمجھوتے پر مجبور ہو جاتے تھے اور آپ جانیں کہ ایک مقولہ یہ بھی تو ہے کہ ”مجبوری کا نام شکریہ” یوں عوام بے چارے شکریہ ادا کرتے کرتے آج اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ روٹی کے نام پر پاپڑ خریدنا ان کا مقدر بن گیا ہے ‘ اور وہ جو کالم کا آغاز کرتے ہوئے ہم نے روٹی کے شاندار مستقبل کا نقشہ کھینچا تھا ‘ ساتھ یہ یہ لکھا کہ خدا جانے کس کی نظر لگ گئی تو اس حوالے سے صورتحال کا اندازہ حبیب جالب کے کلام سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے قلم سے حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا تھا
بیس روپے ہے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
مگر سناٹا کہاں ‘ اس زمانے میں چینی کی قیمت میں صرف چار آنے سیر اضافہ کیا ہوا کہ ملک میں ایک آگ بھڑک اٹھی اور سیاسی فضا میں چینی چور ‘ آٹا چور کے نعرے گونجنے لگے ‘ادھر حالات قابوسے باہر ہوتے چلے گئے ‘ اور ایوبی آمریت کا اقتدار لرزہ براندام ہونے لگ گئی۔ بدقسمتی مگر ایوب خان کی یہ بھی ہوئی کہ انہی دنوں حکومتی مشیروں کے کہے میں آکر ایوب خان نے ”عشرہ ترقی” منانے کے لئے ملک بھر میں تقاریب کا اہتمام کیا تھا ‘ حالانکہ عوام مہنگائی سے پریشان تھے ‘ جبکہ ایوبی حکومت کی صورتحال یہ تھی کہ جس طرح ایک مشہور کامیڈین ببوبرال نے اپنے ایک سٹیج ڈرامے میں ایک ڈائیلاگ ادا کیا تھا جو بہت مشہور ہوا کہ ”میں انھاتے نئیں ‘ بس مینوں دسدا نئیں جے”۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ جو انتظامیہ اور نان فروش ایک طویل عرصے سے ”باہم رضا مندی”سے ڈرامے بازی کرکے بالآخر سارا ملبہ عوام پر گرا دیتے ہیں ‘ تو اس کا کوئی علاج ہونا چاہئے ۔ ابھی گزشتہ روز ہمسائے افغانستان سے جو خبر آئی ہے کہ وہاں کابل حکومت نے اشیائے خورد ونوش کو تمام ٹیکسوں سے مستثنیٰ کرکے سستے داموں ان اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنا دیا ہے تو ایسے حالات میں بھلا ہم کیا تبصرہ کر سکتے ہیں ماسوائے اس کے کہ اس پر حیرت کا اظہار کریں یعنی
حیرت سے تک رہا ہے جہان وفا مجھے
بہرحال عوام اتنا کہنے کا حق تو رکھتے ہیں کہ انہیں روٹی کے نام پر پاپڑ تھمانا بند کیا جائے کیونکہ اب تو ایک روٹی کے بجائے تین تین چار چار ”پاپڑ” بھی ان کی بھوک نہیں مٹا سکتے۔
اس بار کر سکوں گا میں کس کس سے اختلاف
قسمت ‘ نصیب ‘ زندگی سب ہیں مرے خلاف

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا