ملکی سیاست میں امریکی سرگرمی

آئی ایس آئی کی سربراہی کے سوال پر سول ملٹری کشمکش کے آثار کیا پیدا ہوئے کہ امریکی ناظم الامور انجلا ایگلرنے اچانک حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ براہ راست رابطے شروع کر دئیے ۔امریکی ناظم الامور نے لاہور میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف ،مریم نواز کے ساتھ ساتھ چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کی اور بتایا گیا کہ امریکی ناظم الامور نے ان راہنماوں کے ساتھ خطے کے معاملات اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی ۔امریکی سفارتکاروں کا پاکستانی سیاست میں سرگرم ہو کر کردار ادا کرنا یا اپنی موجودگی کا احساس دلانا کوئی نئی بات نہیں ۔ماضی میں امریکی سفارت کار اعلانیہ اور دھڑلے سے پاکستان کی سیاست کا نین نقش تراشا کرتے تھے ۔ملکی سیاست میں سرگرم جاگیردار ،گدی نشین اور سرمایہ دار امریکی سفار ت خانے کا چکر لگا کر سیاسی بادنما پر آنے والے موسموں کا اندازہ کرتے تھے اور اس کے بعد اپنا رخ اسی سمت میں کرتے تھے۔ان وڈیروں ،سرمایہ داروں اور پیر صاحبان کو جدید اصطلاح میں الیکٹبلز کہا جانے لگا ہے ۔کبھی امریکی سفارت کا ر خود انہیں کسی مشترکہ شکار کے دوران ،کسی شام کی محفل اور پارٹی میں آنے والے موسموں کی رتوں کا پتا دیتے تھے اور کبھی یہ خود امریکی سفار ت خانے کا طواف کرکے مستقبل شناسی کرلیتے تھے ۔جب سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بگاڑ آگیا اور امریکہ اور ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کے تار کمزو ر پڑتے چلے گئے امریکی سفارت کاروں کی سرگرمیوں کا یہ انداز بھی بدل کر رہ گیا ۔اس کے بعد امریکہ خلیجی ملکوں کے سفارت کاروں اور خصوصی نمائندوں کے ذریعے پاکستانی سیاست کی اُلجھی ہوئی زلف کو سلجھانے لگے۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان میں ان” برادر ” اسلامی ملکوں کی اس ادا کو مداخلت سمجھا گیا اور رائے عامہ میں شدید ردعمل دیکھنے کو سامنے آیا ۔امریکہ سے سو جوتوں او ر سو پیاز کا رشتہ تو تاریخ کے ایک جبر کے طور پر گوارا ہی تھا مگر برادر ملکوں کی یہ ادا برداران ِ یوسف کی سی شبیہہ بنانے کا باعث بنتی رہی ۔جس کے بعد ان ملکوں نے بھی اپنی اس انداز سے موجودگی میں احتیاط برتنا شروع کی ۔جنرل مشرف سے کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹک حاصل کرنے کے بعد جنرل کیانی نے پاکستان کے طول عرض میں امریکی کنٹریکٹرز ،این جی اوز سمیت پس پردہ کام کرنے والے افراد کو واپس بھیجنے کے مشکل ترین کام کا آغاز کیا تو یہ سلسلہ کم نہیں ہوا اور چند برس میں مکمل ہوگیا تو جواب میں امریکہ نے پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے ماضی کے رشتوں اور تعلقات کا بوجھ اُتارنا شروع کیا ۔” اور”سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ”کے انداز میں امریکہ کی فوجی اکیڈمیوں میں پاکستانی فوج کی تربیت، مشترکہ مشقوں کا سلسلہ اور جدت لانے کے لئے فنڈز دینے کے تمام سلسلے ختم کردئیے۔ اب تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پچہتر سالہ تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں ۔موجودہ حکومت کے دوران تو ان تعلقات کی حالت مزید پتلی ہو کر رہ گئی ۔یہاں تک کہ امریکی صدر جوبائیڈن وزیر اعظم سے ٹیلی فونک گفتگو سے گریز کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں اور جواباََ وزیر اعظم عمران خان اس سے کمتر درجے کے کسی اہلکار کو منہ لگانے سے انکار کی راہ پر چل رہے ہیں ۔کیسے کیسے طاقتور اہلکار ان کی دہلیز کے پاس سے گزر گئے مگر نہ حال احوال پوچھا گیا اور نہ چائے کی پیالی کی دعوت ملی بلکہ تعلقات کا بھرم رکھنے کو ایک تصویر بنانے کی نوبت بھی نہ آسکی ۔پہلے امریکہ پاکستان کے لئے اوپر والا ہاتھ تھا جو کچھ رعایتیں ،چند سہولتیں اور مشکل لمحوں میں کچھ سہارا دیتا تھا اور لامحالہ نیچے والا ہاتھ بہت سی خواہشات کا احترام کرنے پر مجبور ہوتا تھا ۔جب سے اوپر والے اور نیچے والا ہاتھ کا یہ رشتہ کلائی مروڑنے والے ہاتھ میں بدل گیا ہے تب سے پاکستان امریکہ کے دوستانہ اثر ورسوخ سے آزاد ہو گیا ہے ۔اب امریکہ کے پاس پاکستان کو کوئی بات کہنے لئے دبائو اور دھمکی ہی باقی رہ گئی ہے ۔دبائو اور دھمکی کا کیا اثر ہوا تو ہوا نہ ہوا تو وقت کا دھارا اپنے ہی انداز سے بہتا چلا جاتا ہے۔ایسے میں سول ملٹری کشمکش کا تاثر اُبھرتے ہی امریکی سفارت کا روں کا مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں سے کوئی طوفان تو شاید ہی اُٹھے مگر اس مرحلے پر یہ دونوں فریقوں کے لئے ایک جوا ہے۔یہ فریقین کے درمیان نظریہ ٔ ضرورت کا اطلاق تو ہے مگر اس کی حیثیت علامتی ہی سہی مگر اس نے فریقین کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچایا ۔یہ امریکی خواہش پر ہوئی یا مسلم لیگ کی دعوت پر مگراس کا کوئی نہ کوئی تعلق موجودہ سول ملٹری کشمکش کی خبروں سے ضرور ہے ۔اس مرحلے پرمسلم لیگ ن کے ملکی اسٹیبلشمنٹ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امریکہ ان کی پشت پر ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ ان پر اعتماد کرے تو وہ امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور امریکہ کو پاکستان کی کلائی مروڑنے کے عمل سے باز رکھ سکتے ہیں ۔امریکہ اور پاکستان کے سٹریٹجک مفادات میں اتنی دوری پیدا ہو گئی ہے کہ اسے قربت میں بدلنا مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی کے بس میں نہیں ۔دونوں کے بس میں ہوتا تو اپنے ماضی قریب کے دو الگ ادوا ر میں وہ یہ کارنامہ انجام دی چکی ہوتیں ۔دونوں کوشش بسیار کے باجود اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئیں۔دوسری طرف بظاہر دبائو میں آئے ہوئے عمران خان کو امریکہ نے یہ پیغام دیا کہ ”ہرگز نہیں ” کا جواب ان کے پاس موجود ہے کہ وہ ان کے سخت گیر ناقدین کے ساتھ معاملات طے کرسکتا ہے ۔وہ یہ بات بھول گئے کہ ہرگز نہیں سول حکمران کا تنہا فیصلہ نہیں بلکہ یہ سول ملٹری مشترکہ اعلامیہ ہے۔اس پارٹنر شپ کو توڑکر بھی اس فیصلے کو بدلا تو نہیں جا سکتا مگر اس میں کسی حد تک نقب لگائی جا سکتی ہے ۔اس طرح پاکستان پر اثر رسوخ کی صلاحیت سے محروم امریکہ نہ پاکستان کی اپوزیشن کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد سے محروم حزب مخالف کی کوئی جماعت امریکہ کو کوئی عملی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔یوں ان ملاقاتوں پر ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کا ”کا محاورہ ہی صادق آتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں