مشرقیا ت

خبر پڑھی آپ نے۔۔ہمارے ساتھ جو ہاتھ ہو رہاہے یہ اس کی ایک معمولی سے جھلک ہے۔یہ جن کے کوٹھوں اور کوٹھیوں پرنیم پلیٹ کے ساتھ” ھذا من فضل ربی”جیسے بابرکت الفاظ لکھے ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے ایسی جھلکیوں کی تاریخ رقم کرکے ہی فضل ربی کے حقدار قرا ر پائے ہیں۔چھاپہ مارنے والوںنے پچاس لاکھ روپے کی سرکاری ادویات تو برآمد کرلیں تاہم اس سے آگے کیا ہوگا شاید ہی ہم جان سکیں،اب نیک ناموں کے ناموں کی پردہ پوشی کا اہتمام کیا جائے گا،اس کے لئے فضل ربی کے ذریعے ہتھیائے گئے پیسے سے کچھ مزید حصے کرنے پڑیں گے اور اللہ اللہ خیر صلا۔
پشاور سے پکڑی جانے والی یہ سرکاری ادویات اس بات کی چغلی کھا رہی ہیں کہ سرکار کی سرپرستی میںچلنے والے شفاخانوں میں بیٹھے”فضل ربی ”قسم کے نیک ناموں نے یہ ادویات پار کرکے اپنے لئے فضل تلاش کیا تھا۔ان شفاخانوں سے یہ ادویات کیسے پار کی گئیںیہ جانتا کوئی مشکل کام ہے ہی نہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ پکڑے جانے والی دوائوں میں ایک ایسے شفاخانے کی دوائیں بھی شامل ہیںجہاں پرندہ پر ،درندہ در اور چرندہ بغیر اجازت کے چر نہیں مار سکتا تاہم لاکھوں کی ادویات پر یہاں بھی کسی فضل ربی کاپہر ہ تھا اور ظاہر ہے کسی کے اشارہ ابرو پر ہی فضل ربی نے اپنے اور اشارہ کرنے والے کے لئے فضل تلاش کر لیا۔
اوپر آپ کو بتایاہے یہ صرف ایک جھلک ہے ایسی جھلکیوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہوئی ہے۔اللہ کے فضل وکرم سے بات شروع کرنے والے سب نہیں تو بہت سارے فضل ربی ،اسی قسم کے فضل وکرم سے پہلے حاجی فضل ربی اور بعد میں الحاج فضل ربی تک ترقی کر جاتے ہیں تاہم ترقی کا یہ پہیہ آخرکار کسی نہ کسی مرحلے پر جام ہو جاتا ہے اور فضل ربی کو ایک مقام پر اگلے مرحلے کا سوچ سوچ کر ہول آنے لگتا ہے۔ویسے چلتے چلتے ایک سوال کا جو اب تو دیں ،کتنے مریضوں کی سانس کی ڈوری کھینچ کر یہ ادویات بیچی گئیں تھیں؟ان کے حق مارنے والے اب اس کی تلافی کیسے کریں گے ،جو کھا پی کر اس جہاں سے اگلے مرحلے کو سدھا رگئے ان کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ حسا ب کتا ب کسی اور کے حوالے ہوا ،تاہم جو ابھی سانس کی ڈوریاں چھین کر اپنی سانس کو بحال رکھے ہوئے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ توبہ اور تلافی کا راستہ کھلا ہے باقی تواڈی مرضی!!!
(نوٹ! فضل ربی نام بطور استعارہ استعما ل کیا گیا ہے۔اس نام کے استعمال سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں)

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟