تین برسوں کی کمائی

تحریک انصاف کی حکومت نے مؤقف اپنایا ہے کہ مارچ 2022ء تک مہنگائی میں کمی آ جائے گی، تاہم حکومت نے اس کمی کی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے، کیا عوام حکومتی مؤقف کو قبول کر لیں گے؟جہاں تک ہمارا خیال ہے عوام اسے کسی صورت قبول کریں گے اور نہ ہی حکومتی مؤقف میں کسی قسم کی صداقت معلوم ہوتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت مؤقف اپنایا ہے اور اسے اپنے تئیں گمان ہے کہ اس عرصہ کے دوران آئی ایم ایف سے نئی قسط مل جائے گی اور اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے زرمبادلہ موصول ہو جائے گا۔ حکومتی مؤقف کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان نے جولائی 2019ء میں آئی ایم ایف سے 39 ماہ کی مدت پر مشتمل مالی پروگرام حاصل کیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس پروگرام کی مدت نومبر 2023ء کو ختم ہو رہی ہے اگر حکومت کی طرف سے ادائیگی میں تاخیر کی جاتی ہے تو اس کی مدت بڑھ جائے گی، دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کی آئینی مدت اگست 2023ء کو ختم ہو رہی ہے یعنی تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو مالی معاہدے کئے ہیں آنے والی حکومت کو اس کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو عوام کی مشکلات جلد ختم ہونے والی نہیں ہیں اور حکومت کی طرف سے مارچ 2022ء میں مہنگائی کی شرح میں کمی کا دعویٰ درست نہیں ہے بلکہ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا، یہ صورتحال اس امر کی عکاسی کر رہی ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسی درست سمت کی جانب نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی سمیت دیگر مسائل پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے، دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی ناکامی کے حوالے سے عوامی تاثر ایک دن میں قائم نہیں ہوا ہے، اسے تین برسوں کی کمائی کہا جا سکتا ہے، عوام نے تو انتخابات سے قبل اور انتخابات کے بعد تین سال تک تحریک انصاف کو مکمل سپورٹ کیا ہے، اس دوران اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ تحریک کو بھی اس وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس میں عوامی شمولیت نہیں تھی تاہم اس عوامی اعتماد کے باوجود مسائل پر قابو نہ پانے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے وزراء مہنگائی کم کرنے کی بجائے اس کے فضائل سنا رہے ہیں اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی قیمت کو فائدہ مند قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے حوالے
سے گورنر سٹیٹ بینک کا بیان حیران کن ہے کیونکہ آج تک ہم یہ سمجھتے رہے ہیں کہ ڈالر کو آزاد اس لئے چھوڑا گیا تاکہ مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے پاکستانی روپے کی درست قدر کا اندازہ ہو سکے کیونکہ ماضی میں ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں، اب معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے ایک پلاننگ کے تحت ڈالر کی قیمت میں اضافہ کیا ہے اور اس کی وجہ بائیس کروڑ عوام کی بجائے پچاس لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کے مفاد کو سامنے رکھا گیا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے نام پر بھیجی جانے والی رقم پر سات فیصد تک منافع بھی ملے گا، اسے آسان لفظوں میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو پہلے اگر ایک ہزار ڈالر پاکستان بھیجنے پر ایک لاکھ روپے مل رہے تھے تو اب ایک ہزار ڈالر پر دو گنا یعنی دو لاکھ روپے ملیں گے، اور ڈالر پاکستان بھیجنے پر ساتھ فیصد منافع پر پندرہ ہزار روپے الگ سے حکومت کی طرف سے ملیں گے، ایک لمحے کیلئے سوچیں تو پچاس لاکھ اوورسیز پاکستانیوں اور ان کے گھر والوں کو فائدہ ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف سوال پیدا ہوتا ہے کہ 22 کروڑ آبادی کی ضروریات کو سامنے رکھ کر حکومت نے کیا پالیسی ترتیب دی ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے فائدہ کی بجائے نقصان زیادہ ہو گا، بہت سے بیرون ممالک مقیم اس سکیم سے مستفید ہونے کیلئے وہاں کے بینکوں سے قرض حاصل کر کے پاکستان رقم بھجوا رہے ہیں کیونکہ اس سے انہیں کئی گنا نفع حاصل ہو رہا ہے اور کئی لوگ اس سکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بلیک منی کو وائٹ کر رہے ہیں۔ جس سے حکومت کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو رہا ہے جو فائدہ دکھائی دے رہا ہے ایک تو یہ وقتی ہے دوسرا یہ کہ جو دولت پاکستان آ رہی ہے یہ کسی بھی وقت جا بھی سکتی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت اسی صورت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی جب وہ شاٹ کٹ کی بجائے حقیقی راستہ اپنائے جس میں درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ شامل ہو، مینو فیکچرنگ پر توجہ دے کر چین کی طرح ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن اس صورت میں جب ہماری معاشی پالیسی وقتی فائدے کو سامنے رکھ کر بنانے کی بجائے مستقل بنیادوں پر ترتیب دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام