مہنگائی اور احتجاج

مہنگائی کا جن ایسا سر چڑھ بولنے لگا ہے کہ اب حکومت سے لیکر عوام تک ہر کسی کا موضوع مہنگائی اور صرف مہنگائی ہے حکومت بھی بالآخر شدید مہنگائی کی معترف ہو گئی ہے اور اب اس بیانیہ کی وقعت بھی باقی نہیں رہی کہ مہنگائی کے ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں حکومت مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق پریشان نہیں بلکہ حکومت کو اس امر کی سمجھ نہیں آتی کہ اس بلا سے کس طرح نمٹا جائے حکومت کے کمزور اقدامات اور ڈنگ ٹپائو قسم کی پالیسی کی ناکامی اب سب پر واضح ہے بہرحال حکومت اب بھی کوشاں ہے کہ کسی نہ کسی طرح مہنگائی میں کمی نہ لائی جا سکے تو کم ازکم کمزور طبقات ہی کو ریلیف دی جا سکے ۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کی تکلیف سے پوری طرح آگاہ ہیں، حکومت مختلف پروگرامز کے ذریعے کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کی تکلیف سے پوری طرح آگاہ ہے اور پائیدار اقدامات کرکے کمزور طبقات کو زیادہ سے زیادہ ریلیف کی فراہمی یقینی بنا رہی ہے، مختلف پروگرامز کے ذریعے کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کررہے ہیں، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ضلع اور تحصیل کی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال کی گئی ہیں، منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلاامتیاز کریک ڈائون جاری رہے گا۔دریں اثناء ملک بھر کی طرح خیبرپختونخوا بھر میں بھی مہنگائی کیخلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے مہنگائی سے تنگ شہری سڑکوں پرنکل آئے،حکومت کیخلاف شدید نعرے بازی کی گئی ا گرچہ اس میں سیاسی عنصر موجود ہے لیکن یہ عوام کی نباضی بھی ہے اس لئے کہ عام آدمی کے لئے اب جینا دشوار ہوتا جارہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی میں مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہورہا ہے مہنگائی کی مجموعی شرح14.48فیصد تک پہنچ گئی، ایک ہفتے میں چینی، گھی، سبزیوں، تازہ دودھ، دہی، چاول، مٹن اور دالوں سمیت 29اشیا ضروریہ مہنگی ہوگئی ہیں۔خودسرکاری ادارہ شماریات کے ہفتہ وارمہنگائی کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ہفتے میں مہنگائی میں 1.38فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک ہفتے میں چینی، گھی، سبزیوں، تازہ دودھ، دہی، چاول، مٹن اور دالوں سمیت 29اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں27روپے 56پیسے کا اضافہ ہوگیا، ہائی سپیڈ ڈیزل12روپے38اور پیٹرول10روپے50پیسے مہنگا ہوا انڈے فی درجن 2روپے 21پیسے مہنگے ہوئے، لہسن فی کلو 5روپے9پیسے اور آلو فی کلو84پیسے مہنگے ہوئے،5لیٹر خوردنی تیل کی قیمت میں بھی26روپے33پیسے مہنگا ہوا، سبزیاں، گھی کی فی کلو قیمت میں6روپے67پیسے کا اضافہ ہوا۔ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ ایل پی جی گھریلو سلنڈر154روپے 15پیسے مہنگا ہوامہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف سیاسی جماعتوں نے تحریک شروع کردی ہے، حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد نے سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ یہ واحد مسئلہ ہے جس کی وجہ سے حکومت دبائو میں ہے۔ حکومت نے بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے تھے وہ ناکام ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔مہنگائی پر قابو پانے کے لیے چند اشیا پر زرتلافی دے کے مصنوعی انداز میں قابوپانے کی کوشش بھی ہو رہی ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی اس کے ثمر آور ہونے کا کوئی امکان ہے۔حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اس کا علاج اتنا آسان نہیں ہے۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، یہ فریضہ اسٹیٹ بینک کا ہے کہ وہ روپے کی قدر کی حفاظت کرے لیکن اس کی سربراہی جس طرح کے شخص کے حوالے کی گئی ہے اور اس کے جو خیالات ہیں اس سے الٹا حکومت پر تنقید ہو رہی ہے جن ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے وہ دور دور تک نظر نہیں آتے۔ محض نعرے بازی سے حالات نہیں بدل سکتے مہنگائی میں اضافے نے ہر شخص کو پریشان کردیا ہے۔ کورونا کی وباء کے باعث عالمی اقتصادی کساد بازاری کی وجہ سے صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں جنہوں نے روزگار کے بعض ذرائع ختم کیے ہیں۔ اس حوالے سے مہنگائی پر قابو پانے کے بارے میں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر کسی کو بھی اعتبار نہیں ہے۔ وہ حزب اختلاف جس نے مہنگائی کے خلاف آج سڑکوں پر ہے وہ بھی موجودہ بحران کی ذمے داری سے کسی طرح نہیں بچ سکتی۔ موجودہ اقتصادی بحران ماضی کی غلط اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ بالخصوص نائن الیون کے بعد امریکی وار آن ٹیرر کے تحت پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے کیری لوگر بل سمیت جن زنجیروں میں جکڑا گیا ان میں آئی ایم ایف کا شکنجہ بھی ہے ان سارے عوامل کے اثرات اب شدت سے سامنے آنے پر حالات اس نہج کو پہنچ گئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے اس موقع پر حزب اختلاف حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے احتجاج ضرور کرے مگر اس احتجاج کو معاشی سرگرمیوں کو متاثر ہونے کا ذریعہ بنا کر مزید تباہی کا ساماں نہ کیا جائے بہتر ہوگا کہ اسے اجتماعی قومی مسئلہ سمجھ کر تمام معاشی ماہرین سرجوڑ کر ان حالات سے نکلنے سے نکلنے کی سعی کریں اور عوام کے لئے کچھ ریلیف کا سامان کرکے سیاست سیاست کھیلی جائے تو مضائقہ نہ ہوگا۔
ڈالر کی سمگلنگ وذخیرہ اندوزی کی روک تھام
بائیومیٹرک تصدیق کے بغیرپاکستان میں ڈالرکی خریداری بندکرنے کا اقدام دیر آید درست آید کے مصداق احسن قدم ہے اسٹیٹ بینک کیاعلان کے بعد ملک میں بائیو میٹرک تصدیق کے بعد زرمبادلہ کی خرید و فروخت کا قانون نافذ ہوگیا۔ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے مطابق ایکسچینج کمپنیز کا بائیو میٹرک تصدیق کا سسٹم نادرا سے منسلک نہیں ہوسکا تاہم منی چینجر 500 ڈالر سے زیادہ فروخت نہیں کررہے بہرحال اس میں سقم ہے جسے دور کرنا ہو گا۔تاہم نادرا کا کہنا ہے کہ نادرا نے کمپنیز کی مشکلات کے پیش نظر اب موبائل ایپ تیار کی ہے اور چند کمپنیز موبائل ایب کی ٹیسٹنگ کررہی ہیں۔نادرا کے مطابق موبائل ایپ کے ساتھ بائیومیٹرک ڈیوائسز بھی ایکسچینج کمپنیز کو دیں گے، ایپ کے ذریعے کرنسی کی خریدوفروخت کا سارا عمل مانیٹر ہوسکے گا۔ڈالر کی غیر قانونی خرید و فروخت کی روک تھام ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں سے ہونے کے علاوہ ڈالر کی سمگلنگ کی روک تھام اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لئے ضروری ہے اس ضمن میں پہلے سے اگرچہ شناختی کارڈ کی کاپی رکھنے کی رسمی پابندی پر عملدرآمد ہو رہا تھا مگر اس سے مطلوبہ نتائج کا حصول اس لئے ممکن نہ تھا کہ عام آدمی سے ہی اس کی پابندی کرائی جارہی تھی نیز اس طرح سے ڈالر کی مختلف ناموں سے خریداری کی مانیٹرنگ مشکل تھا اب بائیو میٹرک تصدیق سے ڈالر خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کا ریکارڈ بآسانی مرتب اور مہیا ہو گا جس سے بڑے پیمانے پر ڈالر کی خریداری و سمگلنگ اور منی لانڈرنگ آسان نہ ہو گا نیز حکومت اس طریقے سے ڈالر کی مارکیٹ میں اتار چڑھائو پر نظر رکھ سکے گی اور اس حوالے سے بروقت اقدامات کئے جا سکیں گے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ نادرا اس حوالے سے جلد سے جلد انتظامات کو حتمی شکل دے گی اور اس پر عملدرآمد میں حکومت پوری سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں