طبقاتی تقسیم کا ہرسطح پرخاتمہ ناگزیر

حالیہ عرصے میں یکساں قومی نصاب پربہت زیادہ توجہ دی گئی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے متعارف کرایا، اس اقدام کا مقصدسب کے لیے ایک جیسا بنیادی نصاب نافذ کر کے اعلیٰ درجے کے نجی سکولوں اور کم درجے کے سرکاری و نجی سکولوں میں تفریق کو مٹانا ہے ۔ یکساں قومی نصاب پرطویل بحث و مباحثہ ہوا ۔ اس پر کئی سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں ۔ نصاب قابل عمل اور نئی کتابوں میں شامل مواد پر سوال اٹھائے جانے کے علاوہ تدریسی نظام کے حوالے سے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اُن معیارات کے مطابق نہیں ہے جو چھوٹے بچوں کی تدریس کے لیے ہونے چاہئیں۔ یوں ابتدائی طور پر پہلی سے پانچویں جماعت تک متعارف کر ایا جانے والا یکساں نصاب بھی تنازعے کا باعث بن گیا۔ اگر دیکھا جائے تو تعلیم کے علاوہ بھی بہت سے ایسے عوامل ہیں جو قوم میں تقسیم پیدا کرتے ہیں اور ہمیںاُن پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک ملک میں ایک قوم اور ایک نظام کے تصور کو پروان چڑھا سکیں، یہ اُتنا ہی اہم ہے جتنا یکساں قومی نصاب ہے ۔ یکساں قومی نصاب سے بھی سب بچوں کو ایک جیسا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اعلیٰ درجے کے سکول کئی بہتر سہولتوں اور بہتر تدریس کے ساتھ آتے رہیںگے۔ تفریق صرف تعلیمی شعبے تک ہی محددو نہیں، ہم نے یہ تفریق کوروناوائرس کی وباء کے گزشتہ دو سال کے دوران بھی دیکھی ہے اوریہ تقریباً ہر وقت اور ہر سطح پر یہ نظر آتی ہے ۔ سرکاری ہسپتال جہاں زیادہ تر غریب آتے ہیں وہ انہیں زیادہ مہنگی خدمات نہیں فراہم کرتے جو امیر لوگ باآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ نجی ہسپتال جو علاج معالجے کے زیادہ پیسے لیتے ہیں ، وہ اکثر عالمی معیارکی خدمات فراہم کرتے ہیں اور بیشتر ہسپتالوں میں تو مغربی ملکوں جیسی سہولتیں دستیا ب ہیں۔ ملک میں امتیازپر مبنی اس نظام کو ٹھیک کرنے کی کوئی سعی نہیںکی گئی ۔ متعدد سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں صحت کے شعبے میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی کارکردگی پاکستان سے بہتر ہے جبکہ یورپی ممالک خاص طور پر ڈنمارک ،سویڈن،ڈنمارک ، تائیوان اور سنگاپور سمیت مشرق بعید کے ممالک اس حوالے سے سرفہرست ہیں۔ ہمارے پاس کیوبا کی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں میں کوئی پرائیویٹ ہسپتال اور کلینک اور پرائیویٹ ڈاکٹرز نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کے لیے ایک وسیع تر تربیتی پروگرام اور ایک بہترین پبلک سیکٹر ہیلتھ کیئر سسٹم موجود ہے جو اپنے لوگوں کی طبی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور انہیں اعلیٰ معیار کاعلاج معالجہ فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ کیوبا نے 1990ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اپنے صحت کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے بہت جدوجہد کی ہے ، اس بلاک سے حاصل ہونے والا تعاون کھو نے کے باوجود اس نے اپنی علاج معالج کی بہت سی سہولتوںکو برقرار رکھا ہے ۔در حقیقت کیوبا کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو دنیا کے بعض طبی ماہرین نے اتنی اہمیت دی ہے کہ مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر وہ علاج معالجے کی اعلیٰ درجے کی سہولتوں کے حامل دوسرے ممالک میں آنے والے اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں تو وہ کیو با چلے جائیں۔ یہ بات بھی حیران کن بات ہے کہ صحت کے نظام کے حوالے سے امریکہ کا درجہ برطانیہ سمیت یورپی ممالک سے کم ہے چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپر پاور لوگوں اور ان کی صحت کی ضروریات کو ترجیح کے طور پر نہیں دیکھتی ۔ پاکستان کو یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ علاج معالجہ لوگوں کے لیے بڑی تشویش باعث ہے ،جب بھی کوئی شخص بیمار ہوتا ہے ، اس کے خاندان کو اس کی دیکھ بھال کے لیے درکار رقم اور ادویات اوردیگر امداد کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے ، ان کے لیے کوئی سہارا نہیں ہوتا اور نہ ہی معیاری نگہداشت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے۔اس حوالے سے دیہی علاقوں اور ملک کے زیادہ دور دراز حصوں میں ، صورتحال زیادہ خراب ہے۔ ان علاقوں میں کچھ فلاحی ہسپتال ہیں جو بہتر معیار کاعلاج معالجہ اور غریبوں کو اعلیٰ معیار کے طبی ماہرین تک رسائی کے کچھ ذرائع فراہم کرتے ہیں۔ نجی ہسپتالوں کے ریگولیٹ نہ ہونے اور مجموعی طور پر پرائیویٹ میڈیکل کلچرنے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ اگر ہم لوگوں کو علاج معالجے کا ایک مکمل یا کسی حد تک مساوی نظام پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چین ، کیوبا ، ترکی ، ملائیشیا اور دیگر ممالک کی تقلید کرنا ہوگی جنہوں نے اسے زیادہ تسلی بخش انداز میں حاصل کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیا کے دوسر ملک اس حوالے سے ہم سے آگے کیوں ہیں اور ہم کم از کم ان ممالک کو پہنچنے اور اپنے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا صحت کا شعبہ لوگوں کی بہتر خدمت کرے ، ایسے اقدامات سے ہی ہم ایک ایسی قوم بنا سکتے ہیں جو خود کو ایک اکائی کے طور پر دیکھ سکے۔( بشکریہ ، دی نیوز، ترجمہ راشدعباسی)

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے