ذرا سوچیں

خلق خدا کے مسائل سے آگاہی کے لئے تھوڑاسا وقت نکال کر کوئی سوچے تو رحم آتا ہے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور اپنی بے بسی پہ رونا آجاتا ہے مالک کائنات کی تقسیم ا ور فیصلوں پر کسی کی مجال کیاکہ کچھ سوچا جا سکے ان کی مشیت اور مصلحت کے پوشیدہ راز انہی کو معلوم ہیں یا پھر جسے اس کا علم دیاگیا ہو لیکن ہم اپنے جیسے انسانوں کے کردار و عمل اور ان کے ہاتھوں روا سلوک پر توغور کرسکتے ہیں اس پرافسردہ اور ملول ہونا فطری امر ہے مجھے اس کالم کے آغاز سے اب تک جوسینکڑوں پیغامات موصول ہوئے ان کی اکثریت کا تعلق ایسے مسائل و معاملات سے جڑتا ے کہ اگر ہم چاہیں ‘ہماری حکومت اور حکمران چاہیں ‘بیورو کریسی کوشش کرے معاشرے میں آگہی شعور اور لوگوں کے دلوں میں دوسروں سے ہمدردی کا جذبہ ہو اور خوف خدا ہواور خاص طور پر بطور مسلمان ہم اگر اجر خداوندی کے طلبگار بن جائیں تو بہت سے مسائل کا حل اپنی مدد آپ کے تحت ممکن ہے مجھے اخوت کمیٹی کے نام سے صوبائی دارالحکومت کے ایک پوش اور چارسدہ کے ایک پسماندہ گائوں کے مکینوں کے درمیان اخوت اور ہمدردی کے رشتے کا سن کر بہت خوشی ہوئی اس کا بنیادی مقصد چارہ دستوں اور بے کسوں کے درمیان ایک ایسا رشتہ استوار کرنا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کی دستگیری کافریضہ اس طریقے سے انجام دے کہ دوسرا فریق کسی نہ کسی طرح اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکے۔اس مقصد کے لئے بہت سے طریقہ کاراپنائے گئے ہیں جن میں سے ایک روزانہ کی تیار خوراک کی تقسیم کا احسن عمل بھی ہے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ ایک گروپ بنا کر جس میں خیبر پختونخوا ‘ اسلام آباد اور لاہور تک کے سفید پوش اور متمول طبقات کے لوگ شامل ہیں وہ ماہانہ ہزار ہزار پندرہ پندرہ سو کی رقم ایزی پیسہ کے ذریعے اکٹھا کرتے ہیں اس رقم سے ایک
مستحق خاندان کی خواتین معاوضہ پر کھانا تیار کرکے پیک کر لیتی ہیں جن سے رضا کار یا پھر معاوضہ پر رائیڈر ارد گرد کے مستحق خاندانوں جوسروے کے نتیجے میں سامنے آئے ہوں ان کے گھروں پر روزانہ دوپہر کے وقت کھانا پہنچایا جاتا ہے ہر دس دن بعد سبزی اور خشک راشن وغیرہ کا بل گروپ میں شیئر کیا جاتا ہے اور ہر ممبر حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتا ہے اور یوں یہ سرکل چل رہا ہے میں سمجھتی ہوں حکومت کے لئے یہ ایک بہترین قابل عمل ماڈل ہے مگر افسوس کہ ہماری سرکاری مشینری میں اس طرح کے لوگ نہیں ملیں گے جو اس عبادت کو خلوص نیت اور دیانتداری سے سرانجام دیں احساس پروگرام چلانے والے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور حکومت خواہ وہ صوبائی ہو یا وفاقی اگراس طرح سے غریب لوگوں کو ان کی دہلیز پر کھانا پہنچانے کا ماڈل اپنائیں اور ایک منصوبہ بندی و نظم کے ساتھ ایسا ہوجائے تو یہ ملک گیر تبدیلی کا امدادی پروگرام بن سکتا ہے ملک میں مختلف قسم کے فلاحی ادارے اور فلاحی کام ہو رہے ہیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لوگوں کی مدد اور دستگیری کے مختلف طریقے اور انداز وضع ہو سکتے ہیں سالانہ خطیر سرکاری رقم زکواة و صدقات سے کروڑوں اربوں کی رقم اکٹھی ہو سکتی ہے اور ہو بھی رہی ہے لیکن کوئی جامع اور مربوط پروگرام نہ ہونے بدنظمی اور بددیانتی کے باعث اس کا حقیقی مصرف نہیں ہوتا میں سمجھتی ہوں کہ ہر مسجد کی سطح پر فلاحی کمیٹیاں بے شک مسجد کی انتظامی کمیٹی ہی اس کی ذمہ داری لے اور مخیر حضرات مسجد میں
لنگر چلانے میں تعاون کریں تو کوئی بھوکا نہ سوئے کا نعرہ نعرہ سے حقیقت بن سکے گا۔ درد دل کے واسطے انسان کو پیدا کیا گیا احساس کا مادہ ودیعت ہوا اور خیر خواہی و نیکی کو سب سے بڑی عبادت کا درجہ دیا گیا ہم مسلمان ہونے کے ناتے اس کے سب سے زیادہ حقدار ہیں کہ مخلوق خدا کی مدد کریں لیکن اس ضمن میں اغیار کی برتری بھی ہمیں نہیں کھٹکتی کجا کہ ہم اس معاشرے کے کمزور طبقات کا ذمہ اٹھائیں ہمارے ملک اور معاشرے میں غربت بہت ہے مہنگائی بھی بہت ہو گئی ہے لیکن ثروت مند اور دوسروںکی دستگیری کی سکت رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں بس تھوڑا سا ایثار اور قربانی کا جذبہ درکار ہے ہم میں بہت سے چاہیں تو اپنے بچوں کا جیب خرچ کم کرکے ہی ایک خاندان پال سکتے ہیں دل سے پوچھئے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ کیا ماہانہ ہزار دو ہزار روپے کسی غریب خاندان کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ نہیں کر سکتے ریسٹورنٹس میں جا کر کھانا چھوڑکر اس فضول خرچی سے کسی کی دستگیری نہیں کر سکتے جو کھانا ہم پھینک دیتے ہیں ضائع کر دیتے ہیں کیا اسے جمع کرکے کسی غریب خاندان کا پیٹ نہیں پالا جا سکتا نمودو نمائش ترک کرکے کسی کی بیٹی کی شادی کے اخراجات میں حصہ نہیں ڈال سکتے سوچنے اور غور کرنے پراحساس ہو تو کیا نہیں ہوسکتا یہ درست ہے کہ مالک کائنات نے جسے جس حال میں پیداکیا اس کی حالت ہم نہیں بدل سکتے لیکن قدرت نے جو ہمیں عطا کیا ہے اس میں اس کے بندوں کا حصہ نکالنا تو عطا کرنے والے مالک کے خوشنودی کا باعث اور آخرت کا گوشہ ہوتا ہے کیا ہم اپنے کل کے صدقے اور روز آخرت سرخرو ہونے کے لئے کسی ایک غریب کے بھی آنسو نہیں پونچھ سکتے ہم جس حال میں جی رہے ہیں اس حالت میں روز آخرت کیا منہ دکھائیں گے ذرا سوچیں۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی