مشرقیات

اب سب کھلاڑی بننے کے چکر میں ہیں،وہ بھی صرف اور صرف کرکٹ کے ،باقی کھیلوں کا وطن عزیز میں خدا حافظ ہی رہے گا۔یہ رحجان تب ہی پید ا ہوچلا تھا جب پاکستان سپر لیگ کا میلہ سالانہ بنیادوں پر منایا جانے لگا،پیسے ،گلیمر اور شہرت کی چکا چوند کو دیکھ کر ہر نوجوان نے کرکٹر بننے کے اپنے جی میں ٹھان لی اور اس راہ شوق میں ماں باپ بھی ایسے ہی ہمنوا بن گئے اپنے سپوتوں کے جس طرح ایک دور میں اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کا مقابلہ جاری تھااور ماں باپ بچوں کا مستقبل اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا رہے تھے ،نتیجہ یہ کہ وطن عزیزمیں ڈاکٹروں اور انجینئروں کی بہتا ت ہوگئی اور ہم ہزارہا بیرون ملک برآمد کرنے کے باوجود ان میں اتنے خودکفیل ہیں کہ ڈاکٹر حضرات ہوں یا انجینئرز ان کے دستوں کے دستے بھی ا ن بے روزگاروں کی فوج ظفر موج میں شامل ہیںجو آئے روز حکومت کے خلاف سڑکوں پر مارچ پاسٹ کرتی نظر آتی ہے۔
والدین کی ان بے جا خواہشات کا دوسرا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہوا کہ ہمارے ہاں دیگر شعبوں میں نابغہء روزگارکم سے کم ہوتے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ سرکار کے انتظام چلنے والے ادارے ہوں یا پھر نجی شعبے ہر شاخ پر نہ سہی اکثر پر الوئوں سے ہی ہمارا واسطہ پڑا۔آ پ کو یقین نہیں آتا تو نہ آئے حا لانکہ یقین کرنے کے لئے اپنے ہاں کے اداروں کی کارکردگی پر نظر ڈال لینا ہی کافی ہے۔باکمال لوگوں کی لاجواب سروس کو ہی لیں باکمال لوگوں کی وراثتی اس سروس میں کسب کمال کرنے والوں کی بجائے تیرے میرے سفارشی گھس آئے تو حال یہ ہے کہ بقول سید ضمیرجعفری کے
یہ چلتی ہے تو دوطرفہ ندامت ساتھ چلتی ہے
اب ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور کرکٹ کے بخارمیں مبتلا نوجوان والدین کی بھی نہیں سن رہے۔راتوں رات سٹا ربننے کا بھوت ان پر بری طرح سوار ہے ،نوجوانوں کی اس اکثریت کو کوئی سمجھانے والا نہیں کہ سٹاربننے سے نوجوانوں کی جواکثریت رہ گئی یہ کوڑا کرکٹ ہی ہوگی جس پر کوئی دھیان نہیں دے گا۔تو جناب معاشرہ افراط وتفریط کا شکارہو چکا ہے ،کھیل کود ضروری مگر تعلیم وتربیت جو ملکی نظم ونسق سنبھالنے کے لئے اس سے زیادہ ضروری ہے اس کا کیا بنے گا؟آپ جلد ہی دیکھیں گے کہ ڈاکٹروں اور انجینئرز کی طرح کرکٹرز کی بھی فوج ظفرموج ہاتھوں میں ٹھرڈ ڈویڑن ڈگریاں اٹھائے سڑکیں ناپتے نظر آئیں گے اس لئے اس بخار کے علاج پر توجہ دیں۔

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل