تحفظ ماحول کی ضمانت ‘فطری قوانین

چند روز ہوئے کہ میں عالمی حالات و واقعات کی کھوج میں اخبارات کی ورق گردانی میں مصروف تھا کہ ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ عالمی ماحولیاتی تحفظ اور طبعی تاریخ کے ایک نامور محقق اور سائنسدان ایڈورڈ او ولسن کے ہمارے طبعی ماحول کے بتدریج انحطاط سے متعلق چند حدشات نظر سے گزرے۔ ولسن نے اقوام متحدہ کی اسکاٹ لینڈ میں جاری حالیہ گفت و شنید کے تناظر میں دنیا کو درپیش عصری مسائل بالخصوص ماحولیاتی آلودگی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے انسانوں کے مابین وسیع تر اشتراک اور تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس اشتراک عمل کے مقاصد انتہائی واضح اور متعین ہیں۔ ولسن کے مطابق طبعی ماحول کی بقا کے لئے جنگلی حیات کا تحفظ اور افزائش ناگزیر ہے۔ ہمارے ماحولیاتی نظام کے مختلف اجزا باہم اس طرح سے مربوط ہیں کہ ہماری خوشحال اور پائیدار زندگی کا کوئی تصور ہمارے گردوپیش کی دوسری جنگلی اور نباتاتی حیات اور اس کی نشونما کے بغیر ممکن نہیں۔
انسان فطرتا ترقی پسند ہے۔ تہذیب انسانی کی ساری تاریخ دراصل انسانی تعمیر و ترقی کی تاریخ ہے۔ انسانی معاشرے میں تہذیبی عمل کی نمو تبھی ممکن ہو پائی جب انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے اپنے گردوپیش کے طبعی ماحول میں سربستہ قوتوں کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہو پایا۔ قدرتی وسائل کی تسخیر اور انہیں استعمال میں لانے کا یہ عمل ابتدا میں سست اور معتدل تھا تاہم بعد میں انسانی آبادیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ وسائل کی طلب اور معیار میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس طرح ترقی کا پہیہ تو چلتا رہا لیکن جوں جوں انسان دستیاب وسائل سے قوت حاصل کرتا چلا گیا اسی تناسب سے اس کے قدرتی ماحول میں بگاڑ اور ابتری کی علامات بھی ظاہر ہوتی چلی گئیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران مغرب کی صنعتی ترقی کوئلے اور معدنی تیل کے بے تحاشہ استعمال کا نتیجہ تھی جس نے ہمارے قدرتی ماحول میں درجہ حرارت کے اضافے کے باعث حیاتیاتی تنوع کو خطرے میں ڈال دیا۔
دنیا میں ماحولیاتی آلودگی اور بگاڑ کی مثال ایک گھر جیسی ہے۔ ہماری گھریلو زندگی میں بتدریج ظاہر ہونے والے ابتری کے آثار متقاضی ہوتے ہیں کہ ہم گھر کی نگرانی ‘دیکھ بھال اور مرمت میں پہلے سے زیادہ مستعدی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ بالکل اسی طرح اس دنیا کی مثال بھی بنی نوع انسان کے اجتماعی گھر جیسی ہے جس کے تحفظ اور بقا کی تمام تر زمہ داری ذی شعور انسانیت کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ نے دنیا میں2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف میں ایک اہم ہدف یہ قرار دیا ہے کہ اقوام عالم کو اپنے ارضی اور آبی وسائل کا کم از کم تیس فیصدی حصہ صنعتی ترقی کے منفی اثرات سے الگ محفوظ رکھنے کی ترغیب دی جائے۔ تاکہ ہمارے طبعی ماحول میں حیاتیاتی تنوع کی از سر نوع بحالی کے ذرائع اور مواقع میسر آ سکیں۔
ہمارے طبعی ماحول کے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت فطری قوانین سے اس کی موافقت ہے۔ یہی وہ اہم ترین غرض ہے جس کا حصول ہمارے گرد و پیش میں حیوانی اور نباتاتی حیات کو تحفظ دیئے جانے کے بغیر ممکن نہیں۔ آج ہمارے طبعی ماحول میں انواع حیات کو لاحق شدید خطرات تاریخ انسانیت کے گزشتہ کسی بھی دور سے کہیں زیادہ شدید ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے موجودہ طبعی ماحول میں ایک ملین کے قریب انواع کی بقا شدید خطرے میں ہے۔ جنگلی اور نباتاتی حیات کا ضیاع ہمارے طبعی ماحول کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے جس نے کرہ اراض پر خود ہماری سلامتی اور بقا کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ اس کشیدہ صورت حال سے قطع نظر تاحال جی 20گروپ سے وابستہ صنعتی ممالک کے مابین زمین کے مجموعی درجہ حرارت کو 5.1ڈگری کی سطح پر برقرار رکھنے سے متعلق شدید اختلافات موجود ہیں حالانکہ یہ ممالک ہماری زمینی فضا میں 80 فیصد مہلک اور زہریلی گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے زمینی حرارت کا یہ کم از کم معیار مغربی صنعتی انقلاب سے پہلے کی مقررہ سطح کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم ہماری دنیا کے مروجہ صنعتی مفاد نے ممکنہ تباہی کے خطرے کے باوجود معاشی وسائل پر اجارہ داری کے ذریعے طاقت کے حصول کی اندھی دوڑ کو ترقی کا نام دے رکھا ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے قریب واقع فوری مفاد کو دور افتادہ خطرات پر مقدم رکھتا ہے۔ مشہور برطانوی مورخ اور ناول نگار جارج اورویل نے اپنے ناول”1984”میں انسان کے مستقبل کے بارے میں ایسی خوفناک منظر کشی کی ہے کہ پڑھنے والا تھرتھرا اٹھتا ہے۔ اورویل کے مطابق استبداد کی پروردہ یہ دہشت ناک صورت اگرچہ یقینی ہے تاہم اسکی رفتار اتنی ہلکی ہے کہ انسان کو اپنے حتمی انجام کا احساس نہیں ہو رہا۔ صنعتی اور معاشی مفادات کے لئے ہمارے طبعی ماحول کا انہدام بھی ایک ایسا ہی استبداد ہے جس کیخلاف آواز اٹھانا عین جہاد ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟