ٹھوکر کھانے والوں کو سنبھلنے دیں

دنیا کسی امتحان میں ناکامی پر ختم نہیں ہوتی کامیابی کا راستہ ناکامی سے ہی بنتا ہے ناکامی ہی کامیابی کی بنیاد ہوا کرتا ہے ناکامی ایک ایسا سبق ہے جسے سیکھا جائے تو کامیابی کے سارے درروا ہوتے ہیں لیکن ناکامی کو دائمی سمجھنے کا ہمارا رویہ بچوں کی نفسیات اور شخصیت ہی کو متاثر نہیں کرنے لگا ہے بلکہ خود کشی سے لیکر منشیات کے عادی ہونے تک اور ڈپریشن کا شکار ہونے سے لیکر مایوسی کی اتاہ گہرائیوں تک گرنے اور ضائع ہونے کا سبب بنانے لگے ہیں ہم اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کو ایک ایسی دنیا اور ناکامی کی طرف دھکیلنے لگے ہیں جس کا پھر کوئی حل نہیں رہتا ان دونوں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج آرہے ہیں کورونا سے متاثر اور آن لائن کلاسوں میں عدم دلچسپی یا پھر سہولت نہ ہونے کے باعث طلبہ کا مسائل سے دو چار ہونا فطری امر تھا حکومت کی طرف سے دی گئی رعایت کا جہاں طلبہ نے فائدہ اٹھایا وہاں اس سے محروم رہنے والوں کی تعداد بھی خاصی ہے طلبہ کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کی مایوسی اور مسائل بھی قابل فہم ہیں اس کالم کی تحریر کی فوری وجہ ایک قاری کا ارسال کردہ ٹویٹس کا مجموعہ ہے جس میں لاہور کی کسی نجی میڈیکل کالج کی بی ڈی ایس کی طالبہ کی کم نمبروں کے باعث کالج اساتذہ سے لیکر والدین تک کا رویہ ہے جس کے باعث طالبہ نے خود کشی کر لی۔”یہ جینا بھی کوئی جینا ہے بھلا” اٹھارہ سالہ فرسٹ ایئر کی سٹوڈنٹ نے یہ مسیج کرکے خود کشی کر لی جب اس کے ساتھی طلبہ کرکٹ میچ سے محظوظ ہو رہے تھے ۔ میبنہ طور پر طالبہ ذہنی طوردبائو کے باعث کلاس میں بے ہوش ہو گئی تو اسے ڈرامہ قرار دیا گیا ‘ طالبہ کے والدین کو انہیں ڈاکٹر بنانے کا اتنا خبط تھا کہ انہوں نے نجی میڈیکل کالج میں بھاری فیس کے ساتھ بھاری عطیہ بھی دے کر ان کا داخلہ کروایا تھا۔ ہمارے ہاں وقت گزرنے کے باوجود اور شعور میں اضافہ اور پوری آگاہی کے ہوتے ہوئے بھی بچوں کو ہر قیمت پر ڈاکٹر و انجینئر بنانے کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی حالانکہ اب
ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی اتنی محنت اور بھاری سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود بیروزگاری اور نیم بیروزگاری کا شکار ہیں اگر وہ یہی صلاحیتیں اور سرمایہ کسی چھوٹے موٹے کاروبار پر خرچ کر چکے ہوتے تو آج دوچارملازم بھی رکھنے کے قابل ہوجاتے ۔ اس رجحان کے خاتمے کے لئے ہمیں سری لنکا کے تعلیمی نظام کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے جہاں طالب علموں کے رجحانات کے مطابق ان کو مختلف شعبوں میں بھیجنے کا فیصلہ والدین نہیں اساتذہ اور تعلیمی ادارے کرتے ہیں والدین کو ان کی خواہش اور فیصلے کے حق سے محروم کرنے کی وکالت کئے بغیر اتنی گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ کم از کم اپنے بچے پر ظلم کی حد تک دبائو ڈال کر انہیں کسی خاص شعبے کو چننے پر مجبور نہ کریں طالب علم کی صلاحیتوں اور رجحان کا بھی اندازہ لگانے کی زحمت کریں تاکہ پڑھائی ان کے لئے ناقابل برداشت بوجھ نہ ثابت ہو اور وہ دبائو کے باعث ذہنی دبائو کا شکار نہ بن جائے ۔ ڈاکٹر بننا اور انجینئر بننا ہرطالب علم کا خواب تو ہوتا ہے لیکن اس کے لئے وہ اسی درجے کی محنت نہیں کرتے یاپھر وہ پوری کوشش کے باوجود اس معیار کونہیں پہنچ پاتے کہ میرٹ پر آئیں یا سیلف فنانس یا نجی تعلیمی ادارے میں قابل قبول تعلیم حاصل کر سکیں اکثر طالب علم کاغذ کی ڈگری تو لے لیے ہیں لیکن وہ کسی کام کی نہیں ہوتی کیا یہ اچھا نہیں کہ وہ نالائق ڈاکٹر اورانجینئر بننے کی بجائے ایک قابل معلم ‘ آئی ٹی پروفیشنل ‘ ڈپلومہ ہولڈر اور آرٹس و کامرس کے مضامین پڑھ کر اپنے شعبے میں قابلیت کا لوہا منوائیں کوئی بھی مضمون اچھا برا نہیں ہوتا ہر مضمون اور شعبے کی اہمیت ہوتی ہے جس شعبے میں مہارت ہو اس شعبے میں موقع ضرور ملتا ہے اپنی کوشش ہونی چاہئے ۔ محولہ ٹوئٹس کی ایک قطار میں مختلف لوگوں نے اپنے جذبات و خیالات کا
اظہار کیا ہے ایک خاتون کا کہنا ہے کہ خدارا اپنے بچوں کوانسان سمجھئے ریس کا گھوڑا نہیں کبھی پاس ہوں گے تو فیل بھی ہوسکتے ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہے زندگی اپنے اندر بہت کچھ لئے ہوئے ہے صرف نمبر ہی زندگی نہیں۔ آگے چل کر خاتون لکھتی ہیں کہ نہ معاشرہ تبدیل ہو گا نہ ہی نظام تعلیم ہم والدین کو ہی تبدیل ہونا ہے اپنی زندگی کا اثاثہ تباہ ونے سے بچانے کے لئے ہمیں اولاد کو بتانا ہوگا کہ وہ ہمیں نمبروں اور کیریئر سے زیادہ عزیز ہیں کامیابیوں اور ناکامیوں کے باوجود پیارے ہماری زندگی انہی کے دم سے اور ہمیں ان سے پیار ہے۔اس سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارا نظام تعلیم رٹہ بازی کا ہے نمبر رٹہ بازی پر ملتے ہیں ضروری نہیں سارے بچے رٹہ لگا سکیں ایک ڈاکٹر صاحب نے اسی سلسلے میں ٹویٹ کیا ہے کہ میرے بیٹے نے تنگ آکر مجھ سے کہا کہ کیا میں ڈرائیور بھی نہیں بن سکتا اور کیا ڈرائیور کی زندگی نہیں ہوتی اس سے افسوسناک بات اور کیا ہو گی کہ اب تعلیم نمبروں کی تجارت بن گئی ہے ماں باپ اپنے خواہشات کی تکمیل اپنے بچوں سے چاہتے ہیں اور وہ انجانے میں بچوں کی زندگی سے کھیل رہے ہوتے ہیں اساتذہ کا رویہ اور سوچ نمبروں تک محدود ہو چکا ہے اپنے بچوں کو حوصلہ دیجئے کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہے ایک جگہ داخلہ نہ مل سکا تو دوسری جگہ مل جائے گا ان کو نصیحت ضرور کیجئے ان پر قابل برداشت دبائوبھی ڈالیں ان کی نگرانی اور سختی بھی کیجئے لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ جس قابل ہے جتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے اس سے زیادہ کا دبائو ڈالے بغیر خدارا بچوں کی نفسیات اور مسائل کو سمجھے بغیر ان کو مت کوسیں اور ان کو صحت مند انسان کی بجائے ڈپیرشن کا شکار اور ذہنی مریض مت بنائیں۔ قدرت نے ان کے لئے جوسوچ رکھا ہے اور ان کی قسمت میں جو لکھا ہے حالات ان کوگھیر کر اس گلی اور منزل کی طرف خود بخود لیجائیں گے اور وہ وہی کچھ ضرو بنے گا جو ان کی قسمت میں لکھا ہوگا یقین کریں کہ ٹھوکر کھا کر سنبھلنے والے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس