مشرقیات


جلنے والے کہہ رہے ہیںکہ”جلسہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی تنگ سی اس سڑک پر جلسہ کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ آس پاس کی آبادی ہی تماشا دیکھنے نکل پڑے گی اور کسی کو جلسہ گاہ بھرنے کے لئے ہلکان نہیں ہونا پڑے گا۔ اس سوچے سمجھے پلان کے مطابق ہوا بھی یہی،پشاور کے ایک درجن سے زائد ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کو کسی کی منت سماجت نہیں کرنی پڑی او ر آس پاس کے لوگ تماشا دیکھنے نکل پڑے۔تماش گاہ میں ہجوم کی سامنے سے تصویریں نکال کر اس سے پھر فوٹو شاپ کے ذریعے جلسہ گاہ کو بھرنا کون سا مشکل کام ہے ،ٹیکنالوجی نے بڑے بڑے سیاسی بازیگروں کی شرم وحیا رکھی ہوئی ہے۔اس لئے تو ہم کہتے ہیں کہ جلسہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ہم نے اپنی آنکھوںسے تصویری ثبوت دیکھا ہے”۔یہ جلنے والے سوشل میڈیا پر پنڈال میں خالی کرسیوں کی نمائش لگائے ہوئے ہیں یہ وہی ہیںجنہیں عوام نے دو ہزار اٹھارہ اور اس سے بھی پہلے دو ہزار تیرہ میںمسترد کر دیا تھا اب ایک با رپھر ان کے دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ سرکار ی دسترخوان پر بیٹھی جماعت کو دیکھ کر ہی ان کا منہ پانی پانی ہورہا ہے اور اس میںکوئی اجنبھے کی بات بھی نہیں ،کوئی بھی سیاسی جماعت ہویااس کا رہنما وہ اسی دسترخوان کے لئے اپنا اور ہمارا جینا حرام کرنے پر تل جاتا ہے۔اس کھیل کو باریوںکا کھیل کہا جاتاہے۔بھلے دن تھے جب دو ہی فریق ادھر ادھر والوں کو ملا کر اس دسترخوان پر اتفاق رائے سے باری بدل لیتے تھے اب تیسرے فریق نے انت مچائی ہوئی ہے اس کی ضد ہے کہ باریوں کا کھیل اب ختم بس میری اور پھر میری اور آخر میں بھی میری باری ہے۔
اس سارے کھیل کو اب لوگ بھی پتلی تماشا قرار دینے لگے ہیں،ایک آدھ کردار بدل جاتا ہے باقی وہی مہرے ہیں ،اچھی طرح یاد رکھیں کہ یہی مہرے اگلی واری بھی چاہے جس کی بھی ہو آپ کے اور میرے سر پر سوار رہیں گے۔ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل اور وسائل کی گٹھڑی اپنی سیاسی قیادت کے سر رکھ کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔پھر ایک دن معلوم ہوتا ہے کہ مسائل وہیں کے وہیںہماری دہلیز پر پڑے ہیں او روسائل کا کچھ پتانہیں چلتا کہ کون سی آف شو ر کمپنی میں پڑے ہیں۔باریاں لینے والوں کو ہم ہی باریاں دیتے ہیں اور پھر اپنا مقدر بھی روتے ہیں پچھلی بار باریاں لینے والوں کو آرام دینے کا فیصلہ بھی ڈھکوسلہ ثابت ہوا ہے اوراب ہم ایک بار پھر وہیں آکھڑے ہوئے ہیں جہاں سے چلے تھے،واضح رہے اس سفر کی ابتدا2018ء سے نہیں 1947سے ہم نے کی تھی۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''