پشاور کیلئے ایک اور بڑی رقم کا اعلان

صوبائی دارالحکومت پشاور میں جلسے کے چھوٹا یا بڑا ہونے سے قطع نظر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا دھواں دھار خطاب اور 142 ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان اور پہلے سے جاری احیائے پشاور پروگرام صوبائی دارالحکومت کو جدید اور پرسہولت بنانے کیلئے کافی ہونا چاہئے ان پر عملدرآمد اور تکمیل کب ہو گی یہ بہرحال ایک سوال ضرور ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کی ترقی کیلئے ہر دور حکومت میں بھاری بھرکم دعوے اور وعدے ہوتے رہے ہیں، منصوبے بھی بنے اور اقدامات سے بھی یسکر انکار ممکن نہیں مگر اس کے باوجود المیہ یہ ہے کہ پشاور جدید شہر بن سکا اور نہ ہی اس کے مسائل کم ہوئے، البتہ بی آر ڈی کی صورت میں تحریک انصاف کی حکومت نے اس شہر میں جو بڑا منصوبہ شروع کیا تھا اس سے شہریوں کو جدید، پرآسائش اور تیز رفتار سفر کی سہولت ضرور میسر آئی ہے جسے حامی ہی نہیں مخالفین بھی کھلے دل کے ساتھ سراہتے ہیں، علاوہ ازیں احیائے پشاور کی صورت میں بھی پشاور کی ترقی اور اس کی ہیئت کی تبدیلی کا کام جاری ہے ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد اس امر کا اندازہ ہو سکے گا کہ اس کے پشاور کے عوام کے مسائل اور شہر کی بہتری پر کیا اثرات مرتب ہوئے، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے قبل ازیں یہی ہدایت کی تھی کہ پشاور کے جلسے کیلئے صوبائی دارالحکومت کے حلقوں میں سے کارکنوں کو لایا جائے انہوں نے مدارس کے بچوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کو نہ لانے کا طنز بھی کیا، ہم سمجھتے ہیں کہ دس گیارہ حلقوں کے کارکنوں کے علاوہ خواہ مخواہ کا ہجوم اکٹھا نہ کرنے کا فیصلہ اس لئے احسن تھا کہ حالات کی نبض کو سمجھنے اور اندازہ لگانے کیلئے یہ ضروری تھا بہرحال یہ تجربہ ناکام نہیں ہوا بلکہ بساط بھر کارکنوں کو لایا گیا جہاں تک وزیر اعلیٰ کی جانب سے مہنگائی کا اعتراف اور سخت وقت میںکپتان کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا سوال ہے، وزیر اعلیٰ کا عزم اپنی جگہ اور خیبرپختونخوا میں مقبولیت اور رسم وفا نبھانے کی ریت بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے لیکن مہنگائی کی صورت میں حکومت کو جو مسئلہ درپیش ہے اور عوام جن حالات سے گزر رہے ہیں اس روز بروز طاقتور ہوتے عفریت سے پوری طاقت سے مؤثر طور پر نمنٹنے کے جلد نتائج سامنے نہ آئے تو یہ کتنے بھی مضبوط سہارے ساتھ کھڑے ہوں اس دلدل سے نکلنے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتے، حزب اختلاف کی جانب سے عوام کیلئے اس سخت تکلیف دہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی سعی سے قطع نظر بھی حکومت کو مہنگائی میں کمی اور عوام کو ریلیف دینے اور اس کے اثرات کو عام آدمی تک پہنچانے کے اقدامات کرنے ہوںگے اس میں ناکامی کے ساتھ شہر کے درودیوار بھی اگر سونے کی بنا دئیے جائیں تو عبث ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات اور حزب اختلاف کے احتجاجی جلسوں کے سلسلے کے پلڑے کو برابر کرنے کیلئے صوبائی دارالحکومت میں بڑا جلسہ سیاسی ضرورت تھی، اب حزب اختلاف کی باری ہے کہ وہ اس جلسے کا بھرپور جواب دے کے دکھائے، سیاسی جلسے جلوس سیاسی جماعتوں کا حق ہیں لیکن ہر احتجاج اور جلسے کے موقع پر عوام کی جو درگت بنتی ہے اس کا اگر احساس کرکے شہر سے باہر اور مضافات میں کسی بڑے کھلے میدان میں جلسوں کا مقابلہ کیا جائے تو رن بھی خوب پڑے گا تعداد کا اندازہ بھی آسان ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شہر میں عام آدمی کی زندگی اور معمولات و کاروبار حیات پر زیادہ اثرات بھی نہیں پڑیں گے۔

مزید پڑھیں:  ایک اور پاکستانی کی ٹارگٹ کلنگ