جزوقتی امدادی اقدامات مسائل کا حل نہیں

ہمارے ہاں حکومتی حلقوں میں آجکل وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ملک کے غریب خاندانوں کی کفالت کے لیے120ارب روپے کے امدادی پیکج کے چرچے ہیں۔ یہ ایک بڑا پیکج ہے جس کی معاشی جہتیں ہمارے سیاسی مباحث کا موضوع ہیں۔ میں ایک عرصے تک انتظامی مالیات اور معیشت کا طالب علم رہا ہوں۔ میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ذرائع دولت کے ملکی وسائل کو ترقی دیئے بغیر کوئی قوم محض جز وقتی امدادی اقدامات کے سہارے آخر کیسے ترقی کر سکتی ہے؟ ہم اپنے ملک میں صرف غریب وظیفہ خواروں کی فوج ظفر موج تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ آخر وہ تخلیقی دماغ کہاں سے آئیں گے جو فکر معاش سے آزاد قومی ترقی کی بنیادیں استوار کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں؟
اب اسی حالیہ پیکج کی ہی حقیقت ملاحظہ کیجئے۔ امدادی پیکج کے ظاہری حجم سے متاثرہ میں نے کاغذ قلم اٹھایا اور اپنے ناقص علم اور مشاہدے کو بروئے کار لاتے ہوئے اعداد کا ایک میزانیہ تیار کرنے میں مصروف ہو گیا۔ میرے نتائج میری مخصوص معاشی منطق کا حاصل ہیں اور میں اپنے مرتبہ نتائج میں غلطی کے امکان کو بھی خارج از امکان نہیں سمجھتا۔ ہم خواہ غربت کی کسی بھی معاشی تعریف کو پیش نظر رکھیں، ہمارے ہاں کی نصف آبادی یعنی اندازاً 13کروڑ نفوس غریب کہلانے کے مستحق قرار پائیں گے۔ اگر حکومت کے اعلان کردہ پیکج کی ساری رقم ہماری مجموعی غریب آبادی پر تقسیم کر دی جائے تو ہر غریب کے حصے میں923روپے آئیں گے۔ کہاں اوڑھنے اور بچھونے کا پیچیدہ تر اقتصادی مسلہ اور کہاں 923روپے جن سے ایک وقت کا ڈھنگ کا کھانا میسر آنا بھی محال ہے۔ اس جنوں کی حکایت کا اگلا منظرنامہ کہیں زیادہ مایوس کن ہے۔ پاکستان میں ایک مثالی غریب خاندان اوسطا سات افراد پر مشتمل ہے۔ اگر923کو سات سے ضرب دی جائے تو ملک میں رہائش پزیر ہر غریب خاندان کے حصے میں6462روپے آتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ یہ 6462روپے اگر ہر خاندان مہینے میں ایک بار وصول کرے تو یومیہ خرچہ فی خاندان 215روپے بنے گا۔ چونکہ ایک خاندان اوسطا سات افراد پر مشتمل ہے لہذا خاندان کے ہر فرد کو اپنے روزمرہ اخراجات کے لیے یومیہ31وپے ملیں گے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ اگر ملک کا ہر غریب فرد حکومتی اعلان کردہ منصوبے کے مطابق 31روپے یومیہ کے حساب سے آئندہ چھ ماہ تک استعمال کرتا چلا جائے تو کیا ملک میں بڑھتی غربت کا ازالہ ہو پائے گا؟ ہمارے ارباب اختیار فلسفیانہ خصائص سے مزین ترقی پسندانہ سوچ کے حاملین ہیں۔ بھلا کوئی پوچھے کہ آپ فوری امداد کے نام پر ہمارے ہاں کے بظاہر کام کاج کر سکنے کے قابل ایک نوجوان کی جھولی میں چار پیسے ڈالتے ہیں۔ یہی پیسہ اور وسائل خود اسی نوجوان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے ضروری تعلیم اور تربیت کی ترسیل پر کیوں نہیں خرچتے؟ کفالت بزریعہ امداد کو رہنے دیجیئے۔ ہمارے ہاں13 کروڑ غریب عوام کی بحالی ایک اور اعتبار سے بھی ممکن ہے۔ ہماری غریب آبادی کی جغرافیائی تقسیم بلحاظ خاندان لگ بھگ2 کروڑ گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہر خاندان کم از کم ایک مستعد اور کام کاج کر سکنے کے لائق فرد(مرد یا عورت)پر مشتمل ہو تو ہمارے ہاں فی خاندان باصلاحیت افراد کا تخمینہ اندازاً 25سے30لاکھ نفوس پر مشتمل ہو گا۔ فرض کریں کہ اگر امدادی پیکج کے120ارب روپے ایسے مستعد اور باصلاحیت افراد پر تقسیم کیے جائیں تو ہر نوجوان مرد یا عورت کے حصے میں اندازا 45سے50ہزار روپے آئیں گے۔ یہی رقم اگر ان افراد پر اگلے چھ مہینوں تک مناسب فنی تعلیم و تربیت کی ترسیل کی غرض سے اس طرح خرچ کی جائے کہ انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد مل سکے تو ہر نوجوان فی مہینہ 7سے8ہزار روپے کا مستحق قرار پائے گا۔ اس طرح 120ارب روپے فی کس غریب پر اندھا دھند خرچنے جبکہ موصولہ تقسیم شدہ رقم غربت کے خاتمے میں مددگار بھی نہ ہو، اور امدادی پیکج کے یہی120ارب روپے ملک کے باصلاحیت نوجوانوں پر بغرض ہنر کی ترسیل پر خرچنے میں فرق صاف ظاہر ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک ہنر مند، باصلاحیت اور پڑھا لکھا انسان جہاں اپنی زندگی کا بوجھ سہارنے کے لائق ہوتا ہے وہیں اپنے خاندان کے دوسرے افراد کا بھی کفیل اور مدد گار ہوتا ہے۔ ایسا شخص معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ ہماری تبدیلی سرکار کے لیے یہ بات سمجھنی مشکل نہیں کہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ایسے ہنر مند افراد آخر کار خود حکومت کا بوجھ بٹانے میں معاون ثابت ہونگے۔ ہمارے ہاں افلاطون کے مثالی فلاسفہ کی بھرمار ہے۔ خدا جانے ہم اپنے معاشرے کے مثالی عملی انسان کب بنیں گے؟۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی