ماحولیاتی آلودگی اور بڑے ممالک

دنیامیں ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی ہے اسی تشویش کے سدباب کے لئے اس وقت گلاسگو میںدنیا کے ایک سو بیس ممالک کے لیڈران آپس میں دو دن کے لئے اکٹھے ہوئے ‘ اس اجتماع کا بنیادی مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کے سدباب میں پانے کردار ادا کرنے کی یقینی دہائی کروانا تھا۔ دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک ”انسانیت کا بچائو” کی اس مہم میں اپنا حصے کا وعدہ لے کر حاضر ہوا کیونکہ اس وقت بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کے با عث دنیا میں عمومی درجہ حرارت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے اور یہ ا ضافہ انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اس کے باعث مسلسل قطب شمالی اور قطب جنوبی پر برف پگھل رہی ہے جس سے سمندروں میں پانی کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ دنیا کے سائنسدانوں میں تشویش اب بڑھ کر خطرے کی گھنٹیاں بجانے لگی ہے کیونکہ دنیا میں بلند ترین پہاڑی سلسلوں پر موجود برف اور برفانی جھیلوں کی کیفیت میں بھی خاصا رد و بدل دکھائی دیتا ہے ۔ اس تبدیلی کے اثرات کی ایک طویل فہرست ہے جو ہمیں یاد ہے ‘ کیسے کیسے خطرات ہمیں درپیش ہو سکتے ہیں کیسی کیسی بیماریاں سامنے آسکتی ہیں کتنے ملک بنجر اور ویران ہو سکتے ہیں کیسے آندھی ‘ طوفانوں ‘ سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ سے صدیوں پرانی برف جب پگھلے گی تو اس میں قید کتنے ہی خطرناک جراثیم آزاد ہونگے ‘ اور ایسے یہ اندوہناک معاملات بار بار درپیش رہیں گے جیسے کرونا کے دنوں میں دنیا نے دیکھے ہیں۔ ایک نارمل خوبصورت دنیا جس میں ہم اور آپ آزادی سے گھوم پھر سکتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ خواب بنتی چلی جائیگی ‘ یہ ساری باتیں نہ صرف بہت اہم ہیں بلکہ دنیا میں لوگ اس حوالے سے خاصے سنجیدہ بھی ہیں۔ ہر وہ ملک جو دنیا پر حکمرانی کے لئے تیار ہو رہا ہوتا ہے عموماً دنیا کی ماحولیاتی آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ بھی وہی ڈال رہا ہوتا ہے ۔2015ء کے پیرس معاہدے میں ابتدائً امریکہ شامل نہ ہوا تھا ‘ اور اس وقت وہ ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا شراکت دار تصور کیا جارہا تھا۔ اب گلاسکو میں چین او روس شامل نہیں ہوئے ۔ اس وقت جبکہ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں حصہ ڈالنے کے اعتبار سے سہرا چین کے سر ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ چین کے صدر ژی نے اپنا ایک تحریری پیغام اس کانفرنس میں بھیجا ہے جس میں چین اپنا کردار نبھانے کا وعدہ تو کر رہا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت قوم چین کا کردار ‘ امریکہ کے کردار سے کہیں زیادہ مثبت اور قابل اعتبار ہے ۔ چین اگر اس معاملے میں اپنی ذمہ داری محسوس کر رہا ہے اور معاملات کے سدباب کے حوالے سے یقین دہانی کروا رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے وعدوں پر پورا نہ اترے۔
اس وقت دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے باعث درجہ حرارت میں جو اضافہ دکھائی دے رہا ہے پیرس معاہدے میں اس بات کا اعادہ کیاگیا تھا کہ اس اضافے کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنے کی کوشش کی جائے گی اور1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی کمی کو تو یقینی بنایا جائے گا لیکن معاملات کچھ ایسے خوش کن نہ رہے ۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت چھوٹے جزیرہ نما ملکوں کو تو صفحہ ہستی ہی مٹا دینے کے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ دیگر ایسے ممالک جو غریب ہیں اور جن کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی اور کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ داری بھی بہت کم ہے ‘ ان کے لئے بھی درجہ حرارت کا بڑھنا اور ماحولیاتی آلودگی کئی قسم کے مسائل کو جنم دیتا دکھائی دیتا ہے ۔۔ غریب ملکوں کا المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں نہ تحقیق کی جاتی ہے اور نہ ہی اعداد و شمار کے مجتمع کیے جانے اور تحقیق میں استعمال ہونے کا وقت ‘ وسائل اور سوچ موجود ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ساہیوال پاور پراجیکٹ کے اس علاقے کے عوام کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس حوالے سے کوئی ٹھوس تحقیق نہ آج ہمارے پاس موجود ے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی قسم کی توجہ کو ضروری سمجھا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں عام آدمی کو زندگی گزارنے کے لئے جان کے لالے پڑے ہوں وہاں حکومتی فیصلوں کے عوامی صحت پر اثرات کی جانب کون دھیان کرتا ہے ۔ملک میں کینسر کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن اس کی جانب دھیان حکومتی ترجیحات میں بہت نچلے درجے پر ہے ۔ سو کہیں سے کوئی آوازسنائی نہیں دیتی۔دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کے حوالے سے حساسیت بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ لیکن اس کے باوجودمعاملات بگڑتے ہی چلے جارہے ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر صدیوں سے جمی برف پگھل رہی ہے اور اس پگھلنے کے نقصانات ایسے نہیں جن سے ہم ناواقف ہوں کیونکہ مسلسل اس معاملے میں لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کی کوششیں بھی کر رہی ہے ۔ اپنے معاملات سے درستگی کو جنم دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ مسلسل درخت لگانے کی مہم جاری و ساری رہتی ہے دبئی میں پاکستان پویلین میں بھی پاکستان کی بلین ٹری سونامی کو بہت خوبصورت طریقے سے پیش کیا گیا ہے ۔ اگرچہ پاکستان حکومت کے اس عمل پیہم سے میرے جیسے لوگ بہت مطمئن محسوس کرتے ہیں اگرچہ اس حکومت کے باقی کاموں سے ہم کسی صورت بھی مطمئن نہیں ۔ درخت لگانے کے معاملے میں البتہ ہر باشعور آدمی کے درپیش یہ بات رہتی ہے کہ درختوں کو ایک خاص وقت درکار ہوتا ہے ۔ ان کے جڑ جمانے اور پھر قد پکڑنے کے وقت میں معاملات میں اب اور بگاڑ نہیں ہونا چاہئے اور اس یقین کے لئے پاکستان جیسے چھوٹے ملکوں کے بجائے چین ‘ امریکہ اور روس جیسے بڑے ملکوں کی طرف سے یقین دہانی کروائے جانے کی ضرورت ہے ۔ اگر گلاسکو کانفرنس میں چین اور روس جیسے بڑے ممالک شامل نہ ہونگے تو مستقبل کے حوالے سے کسی اثبات کی یقین دہانی اس طور نہ ہوسکے گی جس پر چھوٹے ممالک یقین کر سکیں۔ اس حوالے سے کسی مستحکم اقدام کا کیا جانا بہت ضروری ہے کہ آخرانہی ملکوں کے ہاتھوں میں یہ سب فیصلے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ انہی کی کارروائیوں کے باعث ہے ۔اس کا سدباب بھی انہی کو کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''