قابلیت اور نمبروں کا کھیل

مجھے بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ والدین نے بچوں کی ناکامی اور کم نمبروں کے حوالے سے میرے کالم کو سنجیدگی سے پڑھا اور انہوں نے اپنی رائے اور رویہ تبدیل کیا۔ عزیز بھائی سے جب کبھی کالم ‘تحریر اور اس سے جڑے امور زیر بحث آتے تو وہ ممتاز دانشوراور سابق چیف سیکرٹری جناب عبد اللہ صاحب کی ایک ہی بات دہراتے کہ اصل تحریر ہی وہ ہے جوصائب الرائے افراد کو متاثر کرے اس پائے کی تحریر خاصا مشکل کام ہے البتہ اگر کالم کا پیغام سمجھا جائے اور اس کا جواب مثبت ملے تو میرے جیسے کالم نگار کے لئے وہ بہت کافی ہے ۔ایک لیڈی ڈاکٹر کا برقی پیغام آیا کہ وہ ان کے بچے شوہر اور عزیز و اقارب یعنی سارا خاندان ہی ڈاکٹروں کا ہے” میں ہر قیمت میں اپنے ایک اور بیٹے (جو لگتا ہے کہ سب سے چھوٹا ہو گا) اسے ہر قیمت پر ڈاکٹر بناناچاہتی تھی اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں” گزشتہ کالم کاایک جملہ جو بیٹے نے اپنے والد گرامی سے کہا تھا کہ کیا میں ڈرائیور بھی نہیں بن سکتا اور کیا ڈرائیور کی کوئی زندگی نہیں ہوتی بیٹے کا باپ سے یہ سوال اور اس میں چھپا درد مجھے بھی اکثر محسوس ہوتا ہے اور میں سوچنے لگتی ہوں کہ آخر ہم اپنی ہر محرومی ‘ناکامی اور حسرتوں کو اپنے بچوں کی کامیابی کی صورت میں کیوں پوری دیکھنا چاہتے ہیں یہ بھی کوئی مثبت رائے نہیں کہ جب ایک بھائی اور بہن ڈاکٹر بن سکتے ہیں تو باقی بہن بھائی ا نجینئر ڈاکٹر کیوں نہیں بن سکتے ایک بیٹا فوج میں کمشن اور سول سروس کا امتحان پاس کر سکتا ہے تو باقی کیوں نہیں مجھے گزشتہ کالم کے حوالے سے والدین اور طلبہ کی رائے پڑھ کر لگا کہ گویا ہم مالک کائنات کی تقسیم پر خدانخواستہ راضی نہیں یا پھر ہم نے مزاج ہی ایسا بنا رکھا ہے کہ ہر قیمت پر من چاہا مل جائے جو ناممکن ہے قدرت ہر بچے کو علیحدہ شناخت ‘شخصیت اور قابلیت وہنر عطا کرکے دنیا میں بھیجتی ہے اس عالم رنگ و بو کا ہر پرزہ اور ہر ذرہ اپنی جگہ منفرد ہے ہم بندوں کو اپنی خواہشات عزیز ہوتی ہیں اس لئے ہم بھیڑ چال کا شکار ہیں ورنہ قدرت کے کارخانے میں ہر چیز انمول اور منفرد ہے اس کی تخلیق کا مقصد اور اس کے ذمے ایک کام لگایا گیا ہے کوئی ہنر مند ہے کوئی ادیب و دانشور اور کوئی ان پڑھ مگر ہر ایک سے دوسرے کا کام نہیں ہوسکتا قدرت کے اس کارخانے میں کوئی بھی چیز عبث نہیں ہم ہی نے بعض کوعبث اور بعض کو باعث فخر گردان کرمحبوب بنا لیا ہے ہم اگر قدرت کی تخلیق اور تقدیر پر راضی رہ کر اپنے حصے کی جدوجہد ایمانداری سے حاصل کرنے پر اکتفا و قناعت کرنے لگیں تو دنیا اور دنیا والوں کی اکثرپریشانیاںاور الجھنیں پیدا ہی نہ ہوں اور موجودہ ہوں تو دور ہوجائیں گزشتہ کالم ہی کے تسلسل میں بہت سے طالب علموں نے جہاں اٹھانوے سے بچانوے فیصد نمبر ہی من پسند کالجوں میں داخلہ کے اہل نکلے وہاں پشاور کے تعلیمی بورڈ کے درجنوں ایسے طالب علم جنہوں نے میٹرک میں اعلیٰ نمبر لئے تھے اور ایک تو ٹاپ فائیو میں تھا ان کے نمبر بھی ساڑھے چار سو سے کم آئے دیگر طالب علموں اور محنتی اور پڑھاکو طالب علموں کے عذر کو رد کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن بورڈ ٹاپ کرنے والے کسی طالب علم کو ساڑھے چار سو نمبر ایسے دنوں میں ملیں جب نمبروں کی منڈی لگی ہو لمحہ فکریہ ہے کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ضرور ہوا ہے کہ انصاف اور دیانتداری سے پرچوں کی چیکنگ نہیں کی گئی ہے ورنہ یہ صورتحال نہ ہوتی ایک طالب علم نے تو رزلٹ سے بہت قبل اپنے شاگردوں کو کہا گیا یہ جملہ لکھا ہے کہ اس سال بورڈز میں چیکنگ کی جو صورتحال ہے اس میں آپ لوگوں نے بھلے پرچے اچھے کئے ہوں لیکن نماز اور دعائوں پر زور دیں کہ نمبر اچھے آئیں۔ غیر حقیقی طورپر دیئے گئے نمبروں کے حامل پرچوں کی جانچ کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لگتا ہے کہ وہ معاملہ دبا دیاگیا ہے وگرنہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک دوفیصد کم پورے کے پورے نمبر لینے والے طلبہ کے پرچے چیک کرکے صورتحال واضح کی جاتی اور اگر واقعی ان کے پرچے اس قابل تھے تو وہ نمونے کے طور پر طالب علموں کو دکھائے جاتے کہ اس درجے کا پرچہ اتنے نمبروں کا حقدار ٹھہرتاہے تم لوگ بھی کوشش کرو ایسا کرنا ناممکن نہیں ممکن ہے اور یہ مثالیں تمہارے سامنے ہیں لیکن افسوس ہمارے ہاں اس طرح کی زحمت کہیں نہیں کی جاتی جو طالب علم سالہا سال پڑھے تو محنت کے باوجود اچھے نمبروں کی ضمانت نہیں سارا سال گلچھڑے اڑانے والوں کے لئے اچھے نمبر لینا کوئی مشکل نہیں جب تک یہ ہوتا رہے گا تعلیمی بورڈز کے نتائج پر انگلیاں اٹھتی رہیں گی محنتی اور قابل طالب علم مایوس ہوتے رہیں گے بہت سے طلبہ اور ان کے والدین نے اس امر سے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ٹاپ ٹوئنٹی طالب علموں کے انٹری ٹیسٹ کے نتائج کی تفصیلات ظاہر کی جائیں تاکہ ان کی حقیقی قابلیت سامنے آئے یہ درست ہے کہ انٹری ٹیسٹ میں اونچ نیچ کی گنجائش رہتی ہے لیکن اکثریت کا سکور دیکھ کر اس امر کا اندازہ لگانا غیر حقیقت پسندانہ نہ ہو گا کہ وہ کتنے پانی میں تھے کتنی قابلیت کے حامل تھے اور پرچوں کی چیکنگ و نتیجہ شفاف تھا کہ ہاتھ کرنے والوں کا کمال تھا سچح کو سامنے لایا جائے تو سچ خود ہی بول ا ٹھے گا اور خود کو منوا بھی لے گا۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ایران کے خلاف طاغوتی قوتوں کا ایکا