بِأیِّ ذَنْبِِ قُتِلَت

ملاکنڈ میں سماجی کارکن کے قتل کیخلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے ڈپٹی کمشنر ملاکنڈ اور اسسٹنٹ کمشنر درگئی ملاکنڈ کو او ایس ڈی کرتے ہوئے ان کے عہدوں سے ہٹادیا۔ واضح رہے کہ ملاکنڈ میں دو روز قبل نامعلوم افراد کی فائرنگ سے محمد زادہ آگرہ کو قتل کردیا گیا تھا جس کیخلاف ملاکنڈ کے شہریوں نے شدید احتجاج کیا، قتل سے قبل اپنی فیس بک پوسٹ پرانہوں نے ڈپٹی کمشنر پر سنگین الزامات عائد کئے تھے اور مخالفین کا ساتھ دینے کا الزام بھی عائد کیا تھا ،شہریوں کے احتجاج کے بعد وزیر اعلیٰ محمود خان نے چیف سیکرٹری کو دونوں کیخلاف تحقیقات کی ہدایت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔جابر حاکماں کے منہ پرکلمہ حق کہنے والے اور منشیات کے خلاف سینہ سپر انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن ملاکنڈ کے سابق صدر وسماجی کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نوجوان کا قتل کوئی معمہ نہیں ان پرگولیاں چلانے کے ذمہ داروں کا علم بہرحال تفتیش و گرفتاریوں کے بعد ہو گا لیکن ان کے قتل کے ذمہ دار بالکل بھی نامعلوم نہیں تمام حالات و واقعات کے تناظر میں یہ معاشرہ اور وہ انتظامیہ جس کو موصوف کھری کھری سنایا کرتے تھے اور وہ منشیات کے سوداگر تینوں ان کے شریک قتل ہیں۔حکومت وقت کوبھی علم ہونے کے باوجود ان کے تحفظ میں ناکامی اور غفلت قابل توجہ امر ہے گو کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ان کے قتل کے واقعے کا سختی سے نوٹس لیکر اپنے کلی اختیارات کے تحت قانون کے مطابق کارروائی اور اقدام ضرور کیا ہے لیکن اگر تاخیر نہ ہوتی اور انہی عمال کا اگر واقعے سے قبل تبادلہ کردیا جاتا تو ممکن ہے نوجوان کی زندگی کو درپیش خطرات اسی طرح مختصر نہیں طویل ہوتے ۔ منشیات کے خلاف توانا آواز کو گو کہ باآسانی خون سے رنگا گیا لیکن
جوچپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستین کا
تن تنہا لڑنے والے اس نوجوان کو مقامی علماء ‘ سیاستدانوں اور معززین و حکمرانوں ‘ پولیس و انسداد منشیات کے اداروں کی جانب سے بروقت تائید کیوں حاصل نہ ہوئی یہ اس بانجھ معاشرے کا وہ چہرہ ہے جواب پوری طرح سے بے نقاب ہوچکا ہے علاقے میں منشیات فروشی کا نوجوان کے پاس اس سے اور کیاٹھوس ثبوت ہوسکتا تھا کہ خود ان کے دو عزیز نوجوان آئس کے نشے سے جان کی بازی ہار گئے تھے مقتول تحریک انصاف کے قائد اور وزیر اعظم عمران خان کے شیدائی تھے تحریک انصاف کے منشور کا یہی حصہ جذباتی نوجوانوں کو متاثر کرنے کا باعث بنا تھا کہ ہر برائی کا سر کچل دیا جائے گا مافیا کا ہر کارندہ سلاخوں کے پیچھے ہو گا عملی طور پرایسا نہ ہونے سے ان کا لب و لہجہ دبنگ اور توانا آواز کا ابھرنا فطری امرتھا ان کی آوازسنی جانی چاہئے تھی وہ اگر غلط الزامات لگا رہے تھے تو ان کی غلط فہمی دور اور ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی تھی ان کا قتل اور ان کے خون کی گواہی نے آج سبھی کوصداقت کا یقین دلایا گیا مگر افسوس وہ خود نہ رہے ۔ یہ وہ سحر تو نہیں جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا علاقے کے عوام کا ان کے قتل کے بعد احتجاج وقتی صدمہ کا باعث ہے وگر نہ یہی عوام اگران کے ہم آواز ہوتے تو آج ان کا چھلنی بدن مدفون نہ ہوتا ان کے قتل پر سیاسی جماعتوں کے جوقائدین احتجاج کی صدائیں بلند کر رہے ہیں ان کی توانا آواز سے اگر بروقت آواز ملائی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔بہرحال ایک نوجوان نے ضمیر کی آواز بلند کی ظالموں کوللکارا اور اپنے جان کی قربانی دی وہ تو امر ہوگئے اس حکومت کا اب یہ فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے اس سارے علاقے کے منشیات کے سوداگروں کو گرفتار کرے اور اس علاقے کو ایسا مثالی علاقہ اور معاشرہ بنا دیا جائے جس مقصد کے لئے ایک قیمتی جان گئی ایسا تبھی ہوگا جب وہاں ڈپٹی کمشنر سے لیکر تحصیلدار تک اور ڈی آئی جی اور ایس پی سے لیکر ایس ایچ او تک دیانتدار اور باکردار و جرأت مند افسران تعینات ہوں جہاں تک واقعہ کے بعد بعض افسران کے خلاف کارروائی اور تحقیقات کا تعلق ہے یہ پہلا موقع نہیں معمول کی بات ہے کہ دامن پہ کوئی داغ نہ خنجر پہ کوئی چھینٹ تم قتل کروہوکہ کرامات کرو ہو والا معاملہ ثابت ہو۔ باوجود اس روایت کے مشاہدے اور تجربے کے توقع کی جانی چاہئے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اس سارے واقعے کے پس پردہ واقعات ان ویڈیوز اور مسجد میں متعلقہ حاکمان کے منہ پر مقتول نے خود جودعویٰ کیا اور جن عوامل کی نشاندہی کی وہ سارے بیانات اور شواہد ریکارڈ پر ہیں ان کو محض سوشل میڈیاکی زینت نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان کو سن کر ان پر غور کرکے ان کی روشنی میں کارروائی کی جائے اور ایک ایسی مثال قائم کی جائے کہ حکومت کے مدت اقتدار کے بعد بھی اس کی مثالیں دی جاسکیںاور ملوث عناصر کو اس طرح سے عبرت کا نشان بنایا جائے کہ آئندہ کسی معصوم جان کو خطرہ باقی نہ رہے ۔ حکومت شکایات سیل قائم کرتی ہے ذرائع ابلاغ سے معلومات لیتی ہے جو احسن اقدام ہے لیکن نوشتہ دیوار پڑھنے کا رواج نہیں آج نوشتہ دیوار یہ ہے کہ ظلم کو للکارنے والے کو جاں کی امان نہ ملی اور وہ قتل کر دیئے گئے ۔”اناللہ وانا الیہ راجعون” ایک ذات کے علاوہ سب فانی ہیں اور اعمال کی جواب دہی سب سے ہو گی پیش کر غافل کوئی عمل اگر دفتر میں ہے۔

مزید پڑھیں:  اہم منصوبے پرکام کی بندش