بلدیاتی انتخابات اور موجودہ حالات

وزیر اعلی خیبر پختونخوا کو وہ بندہ ڈھونڈنا چاہیئے کہ جس نے ان کو دلہ زاک روڈ پر جلسہ کا مشورہ دیا تھا یا اس تجویز کی حمایت کی تھی۔ ویسے اہل پشاور کے صبر وبرداشت کی تو مثال نہیں ملتی۔ تحریک انصاف کی آٹھ سالہ صوبائی حکومت کے بعد اور جو مہنگائی کے اعلانات موجودہ حکومت نے کچھ روز قبل کیئے اس کے بعد اس قسم کا رسک لینا قطعاً مناسب نہیں تھا۔لیکن شاید بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد ہے شاید اس لئے انہوں نے ایک پاور شو کرانا مناسب سمجھا۔ اندرون ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں موجود تحریک انصاف کے قائدین نے اس صورتحال کی وجہ سے سوچنا شروع کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے لیئے اپنے امیدوار آزاد حیثیت سے اتارے جائیں۔ خود وزیر اعظم نے کابینہ اجلاس میں کہا ہے کہ آئیندہ تین ماہ بہت اہم ہیں۔ اب اگر تحریک انصاف کے ستارے گردش میں ہیں اور اس ماحول میں ان کے پہلوان لوکل گورنمنٹ الیکشن میں اتارے جائیں تو صرف دعائیں ہی ان کو بچا پائیں گی۔ امپائر ٹیم کے کچھ ذرائع سے بات کی تو انہوں نے صاف کہا کہ اب لوکل گورنمنٹ الیکشن کی سطح پر تحریک انصاف کو کامیاب کرانا ان کا کام نہیں ہے۔ ظاہری بات ہے انہوں نے تو یہی کہنا تھا لیکن حقیقت دیکھی جائے تو خیبر پختونخوا میں اگر تحریک انصاف کو سپورٹ کی جائے تو یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہر گز نہیں البتہ پنجاب میں اب تحریک انصاف کے لئے لوکل گورنمنٹ کی سطح پر انجینئرنگ کرنا تقریباً ناممکن بن چکا ہے۔ خیبر پختونخوا میں اگر آزاد انتخابات کئے جائیں تو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنا موجودہ حالات میں ناممکن ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ باقی جماعتیں عوام کی من پسند ہیں بلکہ امکان ہے کہ عوام آزاد امیدواروں کو زیادہ پسند کریں۔ یہی سوچ کر تحریک انصاف غیر جماعتی یا آزاد حیثیت سے امیدواروں کو لڑانے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ ہمارے ایک سینئر صحافی ساتھی نے ایک اور چیز کی نشاندہی کی۔ ان کا ماننا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر’
لابیز اور کالے دھن والے لوکل گورنمنٹ الیکشن میں زیادہ سرگرمی دکھا رہے ہیں۔ اس قسم کے مافیاز ظاہری بات ہے کہ پختونخوا کے ہر ضلع میں موجود ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا لوکل گورنمنٹ انتخابات کے ساتھ کیا تعلق؟ اس سوال نے پریشان کیئے رکھا۔ کیونکہ مقامی حکومتوں کا نظام تو خالص خدمت کی مقامی سطح پر فراہمی کے لیئے متعارف کرایا گیا تھا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اس میں تو کمائی کا عنصر بھی نہیں ہے۔ ایک کونسلر یا ناظم کے پاس کتنا فنڈ ہو سکتا ہے۔ یہاں حکومتی اراکین صوبائی اسمبلی فنڈز کا رونا رو رہے ہیں تو کونسلرز کو کون پوچھے گا۔ تب ذہن میں لوکل گورنمنٹ کا ایک اور خاصہ یاد آیا اور وہ یہ کہ ”اختیارات”کی ”نچلی”سطح پر منتقلی۔ اختیارات اور نچلی میں ذرا تھانہ کچہری کے معاملات پر ذرا غور کریں۔ گو کہ لوکل گورنمنٹ میں اختیارات تو اتنے نہیں لیکن”ناظم صاحب””کونسلرصاحب”کی آواز ان مقامات پر کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ اس لئے پیسہ تو ان عناصر کے پاس بہت ہوتا ہے لیکن اس کے بعد ایک ”معززٹائٹل”کا رکھنا بھی تو ضروری ہوتا ہے۔ مقامی سطح پر ان کا انتخاب ان کو عوامی پسندیدگی کی کٹیگری میں ڈال دیتا ہے۔ ”سفیدکالر”کے مقام تک پہنچنے کے لئے”نچلی”سطح سے انتخاب ضروری ہے۔ لیکن آج جہاں ایک جانب سیاست دم توڑ رہی ہے وہاں ابھی ابھی مالدار ہونے والوں کی تعداد میں روزانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے۔ وزیراعظم صاحب مافیا کا نام تو لے رہا ہے لیکن ان کی حکمرانی میں مافیا نے جو قیامت مچائی ہے اس کی تاریخ نہیں ملتی۔ مافیا کا جنم ہی جرم کی دنیا سے ہوتا ہے۔ اس لئے آج مقامی سطح پر جو چھوٹے چھوٹے مالدار مختلف دھندوں میں جرم
کے راستے اختیار کرکے مالدار بن گئے کل کو یہی عوام کا خون چوسیں گے۔ یہ دراصل ہمارے معاشرے کے انجام کا آغاز ہے۔ اگر مقامی سطح پر چمک کو نیک کردار سیاسی نمائندوں پر ترجیح دی گئی تو کل آپ ہی بھگتیں گے۔ آپ دیکھیں گے اور کیا پولیس کیا انتظامیہ سب ان کی جیب میں ہوں گے۔ جہاں تک وزیر اعلیٰ صاحب کا تعلق ہے بجائے کسی کے اس طرح کی تجاویز پر عمل کرنے کے کیا ہی اچھا ہوتا وہ اعلان کرتے کہ دوران سفر یہ جو درجن بھر گاڑیوں کا کارواں ان کے ہمرکاب ہوتا ہے یہ ختم اور اب وہ سکیورٹی کے تقاضے پوری کرتی صرف ایک گاڑی میں سفر کرے گا۔ وہ اور زمانہ تھا کہ جب سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول لیا جاتا تھا۔ اب تو بم پروف گاڑیاں موجود ہیں اور ویسے بھی اب امن وامان کی حالت بہتر ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ اعلان کرتے کہ وہ اس گاڑی کا خرچہ اپنی جیب سے دیں گے۔ جلسہ میں جانے کی بجائے ایک خصوصی ٹاسک فورس بناتے جو مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کے ساتھ رابطوں کو مضبوط بنانے میں اخلاص کے ساتھ وزیراعلیٰ کی مدد کرتے۔ پرائیس ریویو کمیٹیوں کا جائزہ لیتے۔خاموشی سے بازار میں نکلتے اور کم ازکم پرائیس ریویو ہنگامی اجلاس کے بعد دیکھتے کہ عمل درآمد کتنا ہو رہا ہے۔ نجی سکولوں کو بلا کر ان کے اخراجات اور آمدن کا حساب کتاب کرتے اور ریاستی ڈنڈا استعمال کرتے ہوئے ان کو مہنگائی ریلیف پر مجبور کرتے۔ دراصل مسئلہ مہنگائی کا اتنا نہیں ہے بلکہ نظام کی کمزوری کا ہے جس میں غریب مزید غریب اور مالدار مزید مالدار ہو رہا ہے۔ یہ سبق ملائشیا کے رہنما مہاتیر محمد نے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد سیکھا اور دنیا کو بتایا نہیں دکھایا کہ لیڈرشپ اگر ہو تو ایک خیرات پر چلتے ملک کو کس طرح ایک اقتصادی طور پر مضبوط ملک بنا سکتی ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے کے پاس اچھے خاصے اختیارات آ چکے ہیں۔ اگر وزیراعلیٰ پختونخوا اپنے وسائل اور اپنے مسائل کا جائزہ لے تو نہ صرف عمومی گورننس بلکہ موجودہ بحران سے بھی نکلنے کے سو راستے ان کو مل جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''