سانحہ اے پی ایس ‘ وزیراعظم عدالت میں

تین سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی ‘ میاں نواز شریف اور راجہ پرویز اشرف کی سپریم کورٹ میں پیشی کے برعکس وزیر اعظم عمران خان کو سپریم کورٹ میں پیشی کے لئے ججز گیٹ سے لایا گیا۔ ان کی طلبی سانحہ آرمی پبلک سکول پشاوراز خود نوٹس میں ہوئی تھی۔ بدھ کو جب اس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل عدالت کے گزشتہ احکامات پر عمل کے حوالے سے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی پنچ کو مطمئن نہ کر پائے ۔ ایک سوال پر اٹارنی جنرل بولے۔”مائی لارڈ میں وزیر اعظم آفس سے معلومات اور ہدایات لے کے عدالت کو بتاتا ہوں” عدالت نے کہا ہم وزیر اعظم کو بلا لیتے ہیں ان سے براہ راست پوچھ لیں گے ساڑھے گیارہ بجے حاضری کے لئے حکم جاری ہوا ‘ وزیر اعظم سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے ۔ اس کے باوجود پیش ہوئے کہ وہ بہت مصروف تھے حکمران اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا رکھا تھا۔ ظہرانے کا اہتمام بھی تھا راج محلوں کی راہداریوں میں بندوں کے ساتھ افواہیں بھی بھاگ دوڑ رہی تھیں۔ وزیر اعظم پیش ہوئے ۔ سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کئے جانے پر ان سے سوالات پوچھے گئے ۔ ا ٹارنی جنرل اور وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن رپورٹ میں اخلاقی ذمہ داری عائد کی گئی ہے ۔ اس پر کیا کارروائی کر سکتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی بنیاد ا خلاقیات ہی ہوتی ہیں یہی اس کی اصل طاقت ‘ ایک سوال پر وزیر اعظم بولے ہم مرنے والے بچوں کے ورثاء کو معاوضہ ہی دے سکتے ہیں والدین صبر کریں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ والدین انصاف مانگ رہے ہیں معاوضہ نہیں بچوں کو سکولوں میں مرنے کے لئے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس قاضی امین نے کہا ذرائع ابلاغ کے ذریعے علم میں آیا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کئے جارہے ہیں ۔ کیا آپ پھر مجرموں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویزات پردستخط کرنے جارہے ہیں؟ جسٹس قاضی نے ٹی ایل پی سے معاہدہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے پولیس اہلکاروں کی شہادت ہوئی یہ اہلکار اس عدالت میں موجود کسی شخص کسی طرح کم نہیں تھے ۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب وزیراعظم بولے”مسٹر جسٹس ایک منٹ کے لئے رکیں میں اس سارے معاملے میں کچھ عرض کرنا اور سمجھانا چاہتا ہوں ” ۔وزیراعظم چاہتے تھے کہ عدالت اس سارے معاملے کو افغانستان کے پس منظر میں دیکھے ۔ انہوں نے جنرل مشرف کی ا فغان پالیسی کا بھی ذکر کیا۔ بولے کمیشن بنا کر تحقیقات کرا لیں کیوں 80 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے ۔ چارسو سے زائد ڈرون حملے ہوئے ‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب سانحہ ہوا اس وقت میری حکومت نہیں تھی۔ یاد دلایا گیا کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ وزیراعظم بولے میں سانحہ کی شام پشاور پہنچا شہدا کے ورثاء سے ملا ان سے تعزیت کی ہمدردی کا اظہار کیا۔ سوال ہوا حکومت نے بچوں کی والدین کے تحفظات دور کرنے کے لئے کیا گیا۔ ان کا جواب تھا اس وقت نواز شریف وزیر اعظم تھے دہشت گردی کے واقعہ کے بعد پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ وہ اس بنیادی سوال کو نظر انداز کر گئے کہ سانحہ اے پی ایس میں جو سیکورٹی لیپس ہوا اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ۔ انہوں نے اس سوال کوبھی نظر انداز کیا کہ شہید بچوں کے والدین جن افراد کے خلاف کارروائی چاہتے اس کے لئے حکومت نے کیا کیا ۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ سابق آرمی چیف اور دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟ وزیراعظم بولے کوئی مقدس گائے نہیں عدالت حکم کرے حکومت عمل کرے گی ۔ ا نہوں نے عدالت میں دعویٰ کیاکہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد داعش ‘ ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند پاکستان آگئے ہیں۔ عدالت نے ان سے پوچھا کہ پنجاب میںپولیس والوں کو قتل کیا گیا ؟ وزیر اعظم نے افغانستان کی کہانی چھیڑ دی ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے حکم دیا کہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد اور وزیر اعظم کے دستخطوں کے ساتھ رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے ۔ سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کو طلب کیا اور وہ عدالت میں پیش ہو گئے ۔ اچھی بات ہے عدالت کا حکم ماننا۔ وزیر اعظم مسلسل یہ کہتے رہے کہ افغان مسئلہ حل ہونے تک یہ مسائل رہیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ افغان مسئلہ پیدا کیوں کیا؟ کیوں ہمارے پالیسی سازوں نے افغان پالیسی تشکیل دیتے ہوئے اس ملک کی جغرافیائی سلامتی اور عوام الناس کے جان ومال کے تحفظ کو مقدم نہیں سمجھا؟کمرہ عدالت کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے دو شہید بچوں کی والدہ نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ بائیس کروڑ افراد کے سرشرم سے جھک گئے انہوں نے کہاکہ سانحہ اے پی ایس کے بعد جب ہم نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لئے اپنی تحریک شروع کی تو ہمیں کہا گیا”کیا ہوا اگر بچے شہید ہوگئے ہیں اور بچے پیدا کرلو”۔ ہم اس معاملے میں کیسے بدقسمت ہیں کہ غمزدہ مائوں کے سروں پر دست شفقت رکھنے کی بجائے بھانڈوں کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بلایا وزیراعظم حاضر ہو گئے چار ہفتوں کی مہلت ہے عملدرآمد کے لئے لیکن اس ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ نہیں ہو گا ۔ اس کی بنیادی وجہ شہید بچوں کے والدین کی اندراج مقدمہ کے لئے د ی گئی درخواست ہے۔ اس میں نامزد افراد کے خلاف کارروائی کون کر سکتا ہے ۔ وزیر اعظم اس لئے کہتے رہے عدالت حکم دے ۔ عدالت کا جواب تھا بطور وزیر اعظم آپ کے پاس اختیارات ہیں کارروائی کریں۔یہاں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ بھید کھلیں پردہ اٹھے اور پورا سچ سامنے آئے ۔ کم از کم مجھے والدین کا یہ موقف درست لگتا ہے کہ ہم نے بچے حصول تعلیم کے لئے سکول بھیجے تھے محاذ جنگ پر شہید ہونے کے لئے نہیں اس لئے ہمیں جواب دیا جائے کہ سکیورٹی ناکام کیوں ہوئی ذمہ دار کون ہے اور یہ کہ ذمہ داروں کے خلاف سات سال گزر جانے کے باوجود کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو