مشرقیات

آج کے انسان کے پاس اگر وقت نہیں تو خود اپنے لئے نہیں انسان اس کے باوجود بھی خود غرض کہلاتا ہے کہ اس کی تقریباً ساری توانائیاں اپنی ذات نہیں اپنی اولاد اور خاندان کے لئے صرف ہوتی ہیں انسان کی کمائی کا پچانوے فیصد حصہ دوسرے کھا جاتے ہیں اتنی قربانی کے باوجود ضعف کی زندگی میں اس کے کام کوئی نہیں آتا دیکھو تواس تیز رفتار زندگی میں انسان جذبات سے عاری ایک مشینی پرزہ بن کر رہ گیا ہے۔ کبھی میں نے، آپ نے،ہم سب نے دوڑتے وقت کے ساتھ بھاگتے ہوئے چند لمحوں کے لئے یہ سوچا ہے کہ کیا ہماری زندگی اپنی ذات کے لئے صرف نا تمام حسرتوں، نا مکمل خواہشوں،من چاہی تعبیر کے متلاشی خوابوں کا ایسا مجموعہ ہے جس کاحتمی نتیجہ صفر ہو گا۔یا ہماری زندگی میں کچھ ایسے لمحے بھی ہونگے جو خالصتا ہم اپنی ذات کے ساتھ مطمئن و آسودہ گزار پائیں گے۔یہ بات سچ ہے کہ زندگی ادھوری خواہشوں کا ایک ایسا موت کا کنواں ہے جس میں ایک خواہش کی تکمیل کے فوری بعد دوسری خواہش جنم لے لیتی ہے اور یہ خواہشیں پوری کرتے کرتے انسان اپنی زندگی کی سانسیں ہار دیتا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ اپنی زندگی کو اپنے لئے کتنا جیا؟اپنے آپ کو کتنا جانا،پہچانا؟کبھی مصروف زندگی کے سالوں ‘ مہینوں ‘ ہفتوں’ گھنٹوں’منٹوں یا سیکنڈوں میں سے صرف چند لمحے اپنی ذات کے نام کیے ہیں؟ آپ جو اپنی زندگی کے کئی ماہ و سال لوگوں کے منہ سے اپنے لئے بہترین اور مثالی انسان جیسے الفاظ سننے کے لئے صرف کر دیتے ہیں کیا کبھی خودکو باور کروایا ہے کہ میں زبردست انسان ہوں میری تخلیق بہت شاندار ہے۔ دوسروں کی رائے دوسروں کی تعریف و داد کوجتنی اہمیت دیتے ہیں کیا اپنے بارے میں اپنی رائے کواتنی اہمیت دی ہے۔ زمانہ کیا چاہتا ہے؟ لوگ کیا کہتے ہیں؟ہمیشہ دوسروں کے پیمانے سے خود کو جانچا ہے۔ کبھی خود سے یہ سوال پوچھا ہے کہ آپ نے معاشرے کو بنانا ہے یا معاشرے نے آپ کو؟کبھی خود سے محبت کرکے دیکھی ہے؟ دوسروں کے دکھائے گئے آئینے میں تو ساری زندگی خود کو دیکھا ہے کیا کبھی خود اپنی ذات کو آئینہ دکھا کر اپنے خال و خد کی اپنی مرضی اور خوشی سے نوک پلک سنواری ہے؟
کبھی خود سے ہمکلام ہو کر اپنے آپ کو باور کروایا ہے میں جیسا ہوں صرف میں ہی ایسا ہوں مجھ جیسا اور کوئی بھی ہو ایسا ناممکن ہے۔ کیوں دن رات دوسروں کو خوش کرنے کے چکر میں خود کو بگاڑنے پر تلے رہتے ہیں؟کیا کبھی نیلے آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھ کر اپنی خودی کی آزادی محسوس کی ہے؟ کبھی رنگ برنگے، نکھرتے کھلتے پھولوں کو کسی معصوم بچے کی طرح ہاتھ کی ہتھیلی پر مسل کر بچپن جیسی بے فکری کواپنی ذات کے اندر اتارا ہے؟ کبھی صرف اپنی ذات کی تسکین کے لئے بنا کسی کی پرواہ کیے بلاوجہ مسکرائے ہیں؟کبھی باہر کی دنیا کے شور میں گم چند لمحے ٹھہر کر اپنی ذات کی خاموشی کو سننے کی کوشش کی ہے؟کبھی دوسروں کی توقعات سے وابستہ اس زندگی کو سلجھاتے سلجھاتے اپنی ذات کی الجھی ڈورپر چند لمحوں کے لئے توجہ مرکوز کی ہے؟اگر ایسا کبھی نہیں کیاتو ذرا سوچئے گا ضرور آپکو اپنی ذات کا حق بھی ادا کرنا ہے۔خود سے محبت کرنا،خود کی تعریف کرنا،خود پر یقین،بھروسہ اور اعتماد کرنا سیکھیں۔آپ کی سوچ آپ کی خواہش آپ کی خوشی پرسب سے زیادہ اور پہلاحق آپکی ذات کا بنتا ہے اسے نبھائیے۔ذرا سوچئے گا۔

مزید پڑھیں:  گھاس کھاتا فلسطینی بچہ کیا کہتا ہے؟