بھرتی

خالی آسامیوں پربھرتی کا حکم

ویب ڈیسک(پشاور) رواں مالی سال کے شروع ہی میں ترقیاتی فنڈز کے سو فیصد اجراء سے متعلق موجودہ صوبائی حکومت کے فیصلے پر عمل درآمد کے نتیجے میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران جاری کردہ ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح میں نمایاں بہتری آئی ہے ۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ترقیاتی منصوبوں کیلئے جاری کردہ فنڈز کے استعمال کی مجموعی شرح 38 فیصد رہی ہے۔ گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جاری ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی شرح میں 425 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ یہ بات منگل کے روز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت منعقدہ صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کی پہلی سہ ماہی کے جائزہ اجلاس میں بتائی گئی۔ صوبائی کابینہ اراکین شہرام خان ترکئی، تیمور سلیم جھگڑا، شکیل خان، ریاض خان کے علاوہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ، سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو سید ظفر علی شاہ، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری امجد علی خان، صوبائی محکموں کے انتظامی سیکرٹریوں اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی ۔

اجلاس کو پہلی سہ ماہی کے دوران تمام محکموں کے تحت ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص اور جاری کردہ فنڈز ، فنڈز کے استعمال کی صورتحال اور دیگر متعلقہ اُمور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔ اجلاس میں گزشتہ اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت کا تقابلی جائزہ بھی لیا گیا ۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ رواں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل 458 نئے منصوبوں میں سے اب تک 153 منصوبے متعلقہ فورمز سے منظور ہو چکے ہیں ۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے جاری فنڈز کے استعمال کی شرح کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پہلی سہ ماہی کے دوران جاری کردہ فنڈز استعمال میں محکمہ ٹرانسپورٹ 74فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا ہے جبکہ روڈ سیکٹر 67 فیصد کے ساتھ دوسرے اورانرجی سیکٹر 61 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  مولانا فضل الرحمن کو احتجاج خیبر پختونخوا میں کرنا چاہئے،بلاول

وزیراعلیٰ نے رواں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل نئے منصوبوں کے پی سی ونز کی منظوری کی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تمام محکموں کو رواں ماہ کے آخر تک اپنے اپنے منصوبوں کی پی سی ونز متعلقہ فورمز سے منظور کروانے کی ہدایت کی ہے اور اُنہوں نے کہا کہ دسمبر میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کا دوبارہ ریویو کیا جائے گا اور پی سی ونز منظور نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ سیکرٹریز کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ وزیراعلیٰ نے ترقیاتی منصوبوں کی موثر مانیٹرنگ کیلئے مانیٹر نگ اینڈ ایوالویشن سیل کو مزید مستحکم کرنے اور اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مانیٹرنگ رپورٹس کی روشنی میں متعلقہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائیاں بھی عمل میں لاکر رپورٹس پیش کی جائیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ضم اضلاع میں بھی ترقیاتی منصوبوں کی موثر نگرانی کیلئے مانیٹرنگ کا خصوصی نظام متعارف کرایا جائے۔اجلاس میں ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکوں کے عمل میں اصلاحات پر تفصیلی غور و خوض بھی کیا گیا اور ان ٹھیکوں کے سارے عمل میں اصلاحات کے لئے صوبائی وزیرخزانہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ مذکورہ کمیٹی پندرہ دنوں کے اند ر اندر اس سلسلے میں ٹھوس تجاویز منظوری کیلئے پیش کرے گی ۔

مزید پڑھیں:  پشاور، انسداد پولیو مہم، مقرر اہداف کا حصول ٹیم ورک سے ممکن ہے، علی امین گنڈاپور

وزیراعلیٰ نے تمام متعلقہ وزراء اور انتظامی سیکرٹریز کو اپنے محکموں کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے کیلئے ماہانہ ایک اجلاس منعقد کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ تمام محکموں کو ترقیاتی فنڈز کا سو فیصد ریلیز کر دیا گیا ہے جبکہ جاری کردہ فنڈز کے استعمال کی شرح کو مزید بہتر بنایا جائے۔ اُنہوں نے سرکاری محکموں میں تمام خالی آسامیوں پر تین مہینوں کے اندر بھرتیوں کا عمل مکمل کرنے کی ہدایت کی ۔ اس کے علاوہ وزیراعلیٰ نے تمام واٹر سپلائی سکیموں میں ایک کی بجائے دو اہلکاروں کی تعیناتی کیلئے نئی آسامیاں تخلیق کرنے کی ہدایت بھی کی ہے ۔ اُنہوں نے صوبے کے پبلک گیمز ریزرو میں وائلڈ لائف میں چوکیدار کی آسامیاں تخلیق کرنے اور فارسٹ گارڈز کی نئی تخلیق کردہ 1200 آسامیوں پر بھرتیو ں کاعمل جلد مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی ہے ۔ وزیراعلیٰ نے محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کو ڈپیوٹیشن پر دوسرے محکموں اور انتظامی عہدوں پر تعینات تمام اساتذہ کو واپس بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے تمام اساتذہ کو ایک ہفتے کے اندر سکولوں میں تعینات کرکے رپورٹ پیش کی جائے ۔ مزید برآں وزیراعلیٰ نے محکمہ اوقاف کو پندرہ دنوں میں صوبہ بھر کے خطیبوں کی ماہانہ تنخواہوں میں اضافے کا اعلامیہ جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ان خطیبوں کی ماہانہ تنخواہیں آٹھ ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 21 ہزار روپے ماہانہ کی جائیں ۔