دہلی اعلامیہ یا عالمی لطیفہ؟

بھارت نے روس اور ایران سمیت آٹھ ملکوں کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرز کی ایک کانفرنس کا دہلی میں انعقاد کیا ۔اس کانفرنس میں ہر کوئی موجود تھا سوائے مسئلہ کے فریق اول یعنی افغان حکومت اور اس مسئلے کے سب سے کلیدی فریق پاکستان کے۔افغانستان خود بھی موجود نہیں تھا اس کا سب سے اہم ہمسایہ بھی نہیں مگر ہمسائے کا ہمسایہ امن کا علمبردار بن کر حالات کا ماتم کر رہا تھا ۔بھارت نے اس کانفرنس میں افغان حکومت یا طالبان کو دعوت ہی نہیں دی ۔پاکستان نے یہ کہہ کر شرکت سے انکار کیا کہ امن کو تباہ کرنے والا امن کا علمبردار کیونکر ہو سکتا ہے ۔چین نے اپنے روایتی ڈپلومیٹک انداز میں شرکت سے معذرت کر لی ۔امریکہ کی شرکت کا معاملہ سرے سے گول ہی ہوگیا ۔یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے روس کی اس کوشش کو پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا ۔حقیقت میں یہ کانفرنس افغانستان کے مسئلے پر بارہویں کھلاڑی بن جانے اور تنہائی کا شکار ہونے والے بھارت کو ایک فیس سیونگ دینے کی کوشش کی تھی ۔روس اور بھارت کے تعلقات میں پہلی سی گرم جوشی تو قائم نہیں مگر دونوں کے درمیان دفاعی سودے چلتے رہتے ہیں ۔روس نے اپنے زیر اثر ملکوں کو بھارت پہنچانے کا اہتما م تو کیا مگر اس نے بھارت کی زبان اور اصطلاحات اپنانے سے انکارکیا ۔وسط ایشیائی ریاستوں پر روس کا اثر ورسوخ اب بھی مسلمہ ہے یہی وجہ ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں نے امریکہ کو افغانستان پر نظر رکھنے یا ڈرون حملے کرنے کے لئے اڈے فراہم نہیں کئے ۔روس کی طرف سے بھارت کو بھی اس بات پر آمادہ کیا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ کو اڈے فراہم نہ کرے اور افغانستان پر ہونے والی کانفرنس ایسی ہی پرکشش ترغیب تھی ۔اس کانفرنس میں دہلی اعلامیہ کے نام سے جو بیان جا ری ہوا وہ بھارت کا زبان ودہن لئے ہوئے تھا۔اس میں افغانستان کے مسئلے کو دہشت گردی سے جوڑ اگیا تھا اور افغانستان کی حکومت کو تمام طبقات کی نمائندہ بنانے اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی ۔روس نے دہلی اعلامیہ سے ہٹ کر اپنا الگ بیان جا ری کرکے بھارت کی ڈفلی بجانے سے انکار کیا جس میں دہشت گردی سے متعلق بھارت کی اصطلاحات کا کوئی ذکرنہیں تھا ۔اس طرح بھارت اس کانفرنس میں تنہا ہی رہا اور روس اور اسکی زیراثر ریاستوں کا موقف الگ رہا ۔کشمیر یوں کی شناخت انفرادیت ملکیتی حقوق ،بری بھلی جمہوریت ،اسمبلی اور خواتین کے حقوق کی چتا پرکھڑے ہو کر بھارت نے افغانستان کا خوب ماتم کیا ۔کشمیر میں عوام کو علاقوں اور مذاہب اور زبانوں کی بنیاد پر تقسیم کرنے اور سوشل سٹرکچر کو تباہ کرنے والے ملک نے طالبان کو گڈ گورننس اور تما م طبقات کی حکومت قائم کرنے کا لیکچر دیا ۔حالت یہ ہے کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر میں خواتین اور مردوں کی تخصیص کئے بغیر انسانوں کے حقوق ہی سلب کر دئیے گئے ہیں۔خود ایک بڑی آبادی کو انسانی حقوق سے محروم کرکے طالبان کو اچھی حکومت قائم کرنے کا مشورہ دے کر عالمی لطائف کے ذخیرے میں اضافہ کر رہا ہے۔بھارت کشمیر میں حکومت نہیں کر رہاہے بلکہ کشمیر کو مینج کررہا ہے اور مینجمنٹ کا یہ عمل کب تک جاری رہے گا ؟۔ جس د ن دہلی اعلامیہ جاری ہو رہا ہے عین اسی روزافغانستان کی صورت حال پر غور کرنے کے لئے اسلام آباد میں ٹرائیکا پلس اجلاس منعقد ہورہا تھا۔اس اجلاس میں امریکہ چین اور پاکستان طالبان اور روسی نمائندوں نے شرکت کی ۔اس طرح یہ افغانستان کے موجودہ تمام اہم سٹیک ہولڈرز کا اکٹھ تھا ۔افغانستان کی صورت حال کا سب سے اہم فریق اور سب سے بڑی زمینی حقیقت طالبان ہیں ۔جو دوعشروں کی مزاحمت کے بعد افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔افغانستان میںا مریکہ کا مفاد کم نہیں ہوا۔امریکہ اقوام متحدہ اور عالمی معاشی اداروں پر گہرا اثر ورسوخ رکھ کر طالبان کو اسی طرح بے دست وپا بنانے کی پوزیشن میں ہے جس طرح آئی ایم ایف اور فیٹف کے ذریعے اس وقت پاکستان کا بازو پوری قوت سے مروڑا جا رہا ہے۔طالبان حکومت کے ساتھ قریب قریب یہی سلوک شرو ع ہوچکا ہے ۔امریکہ نے ان کے اثاثے منجمد کراکے معاشی بحران اور عوامی بے چینی کا کارڈ کھیلنے کا آغاز کیا ہے۔روس افغانستان کا بالواسطہ ہمسایہ بھی ہے اور ماضی کی اتھل پتھل کا ایک مرکزی کردار بھی ۔روس ان ملکوں کی صف میں شامل تھا جو اس ملک میں امریکہ کی مسلح موجودگی کے دلی طور پر مخالف تھے اور یہ چاہتے تھے کہ امریکہ اس ملک سے انخلا کرجائے ۔چین بھی خطے کا ملک ہونے کی وجہ سے امریکہ کی یہاں فوجی انداز سے موجودگی کا مخالف تھا اس لئے ان ملکوں کے طالبان کے ساتھ روابط کا ماضی موجود ہے۔پاکستان افغانستان کے بعد اس صورت حال کا سب سے اہم فریق ہے کیونکہ افغانستان کے حالات پاکستان میں منعکس ہوتے ہیں ۔وہاں جنگ ہوتی ہے تو پاکستان میدان جنگ بنتا ہے اور وہاں امن ہوتا ہے توپاکستان میں امن کے پھول کھلتے ہیں اور معاشی حالات میں بہتری آتی ہے ۔اس منظر نامے میں ٹرائیکا پلس اجلاس تمام اہم فریقوں کا نمائندہ تھا ۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟