مشرقیات

کل کیا ہوگا، کل کس نے دیکھا ہے ؟ہمارے ہاں پھر بھی اپنے نونہالوں کے مستقبل کے بارے میں ماں باپ جتنے پریشان رہتے ہیں اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے جیسے اپنے بچوںکامستقبل ان والدین کے سامنے پڑاہو۔وہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ہر بچہ اپنے باپ کا باپ ہوتا ہے اور جیسی ماں ویسی بیٹی کی مثل بھی ہم سنتے آئے ہیںتو والدین کی پریشانی کچھ غیر حقیقی بھی نہیں ہوتی،آپ بیتی سامنے رکھ کر ہی وہ پریشان ہوتے ہیں،ان کی خواہش ہوتی ہے کہ نادانی،جوانی اور ہوش وخرد کے پورے ہونے کے زمانے میںبھی ان سے جو غلطیا ں ہوتی رہی ہیںان کی چھاپ ان کے بچوں پر نظرنہ آئے یہ کوئی غلط بات نہیں تاہم
ہاں ایک بات بھلا دی جاتی ہے کہ عمر عزیز کے اس حصے میں جو عادتیں پختہ ہوجاتی ہیںان سے بندہ پھر عمر بھر جان چھڑانے میں لگا رہتا ہے مگر بقول شاعر ”چھٹتی نہیں یہ منہ سے کافر لگی ہوئی”ایسی ہی ایک عادت میںگرفتار باپ نے اپنے جوان بیٹے کو اپنی وراثت پھونکتے دیکھا تو آگ بگولا ہوگئے ، اس پر ہاتھ اٹھانے سے قبل بولے: یہ سبق کہاں سے لیا؟برخوردار کورونا کے باعث گھر پر کلاسیں لے رہے تھے جھٹ کہا :”گھر سے”۔باپ کا اٹھا ہاتھ ہی نہیںرکابلکہ بیٹے کی بجائے اس کا سر بھی جھک گیا۔
تو جناب !بات یہ ہے کہ شاندار مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے سے قبل صرف بچوں کو ہی پیش نظر مت رکھیں یہ بھی یا د رہے کہ اس منصوبہ بندی میںآپ کی اپنی کون کون سی عادتیں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ان عادتوںکا قلع قمع پہلے ضروری ہے ورنہ وراثت میں نئی پو د بھی انہیں سنبھال لے تو سارے پلان ناکام ہونے کی بنیاد بھی سمجھیں،آپ نے اپنے ہاتھ رکھ لی۔کیا آپ نے نہیں دیکھ رہے کہ اپنے ہاں کے والدین آج کل بچوں سے زیادہ موبائل کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ،ایسے میں بچے کیا سیکھ رہے ہیں یہ بھی آپ بچشم خود دیکھ رہے ہیں۔ تو مستقبل تو ان بچوں کا بھی بالکل سامنے پڑا ہوا ہے،جتنے لاتعلق ہو چکے ہیں ہم اپنے بچوں سے ،ہم سے کچھ زیادہ نہیں بہت زیادہ ہی یہ بچے اپنے بچوں سے لاتعلق ہی ثابت ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں اپنے بچوںکے مستقبل کے بارے میں ان کی پریشانی بھی ہم سے سوا ہوگی۔کل کیا ہوگا اور کل کس نے دیکھاہے؟اپنا کل دیکھنے کے لئے یہ آئینہ دیکھ لیجئے کل سامنے دھرا نظر آجائے گا۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام