سراب کے تعاقب کے بعد

معاشی مشکلات کے بھنور میں پھنسی ہوئی حکومت کو اس وقت پارلیمانی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی جب وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کئی اہم اور دور رس اہمیت کے حامل بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی ۔ یوں تو مجموعی طور پر مشترکہ اجلاس میں تنتیس بل منظور کئے گئے مگر ان میں دو بل ووٹنگ مشین اوراوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ،زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔اپوزیشن جماعتوں کے لئے یہی دوبل بے چینی اور اضطراب کی وجہ بنے ہوئے تھے کیونکہ اپوزیشن انتخابی سسٹم کو درست کرنے کے نام پر ہونے والی اس کوشش کو مستقبل کی دوربین سے دیکھ رہی تھی ۔ان کے اندیشوں اور وسوسوں کا تعلق ماضی کے تجربات اور ماضی کی مشق سے تھا ۔ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی جیت کے بعد انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے ریگ مال کے استعمال ،فرشتوں کے ووٹ ڈالنے ،چمک کا نتیجہ اور آر اوز کا الیکشن جیسی معنی خیز اصطلاحات استعمال ہوتی رہی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کوئی بھی الیکشن دھاندلی کے الزام سے پاک نہیں رہا ۔ایک طرف اپوزیشن کا الزام تو دوسری جانب حکومت ووٹنگ مشین کو دھاندلی روکنے کی بنیاد قراردے رہی تھی تو اپوزیشن اسے دھاندلی کا آغاز قرار دے رہی تھی۔اسی طرح اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا معاملہ بھی حکومت اور اپوزیشن کے دوالگ دھاروں میں بہنے کا باعث تھا۔آج کی اپوزیشن ماضی میںجب وہ حکومت ہوا کرتی تھی اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی کی وکالت کرتی تھی ۔اب مستقبل کے اندیشوں کے خوف سے اپوزیشن نے اپنے ماضی کے موقف سے یوٹرن لیتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی کی جم کر مخالفت کی ۔کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے اور سٹیٹ بینک سمیت سے متعلق بل کی مخالفت محض زیب ِ داستاں کی خاطر کی جا رہی تھی اور اس کا تعلق حکومت کی پہلے سے خراب عوامی ساکھ کو مزیدخراب کرنے سے متعلق تھا ۔کلبھوشن یادیو گزشتہ برسوں اس ملک کی سیاست میں استعمال ہونے والا ایک نام رہا ہے ۔میڈیا سے پارلیمنٹ تک کہ یہ نام گونجتا رہا ہے ۔اس کا نام لینے پر شرطیں لگتی رہی ہیں اور بہت سے لوگوں کی استقامت کو داد دی جانی چاہئے کہ انہوں نے زمانے کے مشتعل کرنے کے باوجود یہ نام زبان پر نہ لایا یہاں تک یہ نام کچھ سیاست دانوں کی چھیڑ بن گیا ۔اسی طرح گورنر سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں اور آئی ایم ایف اپنی حرکتوں سے پاکستان کی اپوزیشن کی معاونت ہی نہیں ان سے بڑھ کر اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے ۔اس لئے گورنر سٹیٹ بینک عوام کی جتنی زیادہ چیخیں نکالیں گے اتنا ہی اپوزیشن کو سیاسی فائدہ ہوگا۔یوں اپوزیشن کی اصل تشویش ووٹنگ کے لئے الیکٹرونک مشین کے استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کو حق رائے دہی کے فیصلوں سے تھی ۔ اپوزیشن جماعتوں اور ادھارے کھائے بیٹھے میڈیا کے کچھ لوگوں نے اسے خواہ مخواہ ریفرنڈم بنا رکھا تھا اور تاثر یہ دیا جا رہا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں دوری پیدا ہو گئی ہے اور اس خودساختہ خلیج کو جو آب نہیں سراب تھی۔ اپوزیشن نے اس سراب کا بھرپور تعاقب کیا۔لندن سے جی ایچ کیو کی ملاقاتوں اور تلخ لہجوں میں شیرینی کی حلاوت اسی تعاقب کے مظاہر اور انداز تھے اور آخر ایک مرحلے پر اپوزیشن نے اس سراب پر بھرپور چھلانگ لگا نے کی کوشش کی ۔ادھر ایک صفحہ پھٹ جانے کی افواہیں کیا شروع ہوئیں تو اُدھر لندن میں ملاقاتوں کا دور شروع ہو گیا ۔ملک کے اندر پراسرار ملاقاتیں ہونے لگیں ۔ شیروانیاں سلنے لگیں ۔پرانی ناراضگیاں دور ہونے اور شیر و شکر ہونے کے مناظر دکھائی دینے لگے ۔ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف سخت جملے بولنے والوں کی زبان کوثر وتسنیم میں دھلنے لگی اور یوں ”جی کا جانا ٹھہر گیا صبح گیا یا شام گیا” والا منظر پوری محنت سے تخلیق دیا گیا ۔ یہی نہیں امریکی بھی اس سراب کو پانی سمجھ کر چھلانگ لگا بیٹھے ۔امریکہ کی قائمقام سفیر انجیلا ایگلراپنی محتاط پالیسی میں تبدیلی کرکے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے لگیں اور سُن گُن کے اسی چکر میں وہ جی ایچ کیو بھی جا پہنچیں۔اپوزیشن تو تہیہ ٔ طوفاں کئے ہوئے تھی اتحادی بھی پلو جھاڑنے اور پر پھڑپھڑاکر اگلی اُڑان بھرنے کی تیاریوںمیں دکھائی دینے لگے ۔خیال تھا کہ حکومت قانون سازی کی اس بارودی سرنگ سے ٹکرا کر پارلیمان میں ہی بھک سے اُڑ جائے گی اور پارلیمانی ناکامی کے بعد حکومت کے پاس باقی رہنے کا اخلاقی اور آئینی جواز ختم ہو جائے گا ۔یہ سب خواب اس وقت سراب ثابت ہوئے جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کو واضح اکثریت حاصل ہوئی اور وہ اس اکثریت کے بل پر قانون سازی کرنے میں کامیاب ہو گئی ۔یوں اس مرحلے پر ایک صفحے کی دراڑ کی بات ہوا میں تحلیل ہوگئی ۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں