سمندرپار پاکستانیوں کیلئے اقدامات کی حقیقت

وزیر اعظم عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے ڈیجیٹل پورٹل کے آغاز کے موقع پر ان کوووٹ دینے کے حق اور ان کے مسائل کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل اس سے کہیں بڑھ کر ہیں پاور آف اٹارنی کاآسان اجراء اور ووٹ کا حق اکثریت کا مسئلہ نہیں اکثریت کا مسئلہ دیار غیرمیں ان کے وہ مسائل حل کرنا ہے جس کا تعلق اس ملک میں ان کے حقوق کا تحفظ اور پاکستانی سفارتخانوں کا ا ن شہریوں سے تعاون اور توجہ ہے کسی ملک میں خدانخواستہ کوئی واقعہ رونما ہوجائے کوئی حادثہ ہو اس ملک میں مقیم پاکستانیوں کی ہنگامی امداد اور ان کی وطن واپسی کے انتظامات کا مسئلہ ہو یا پھر معمول کی آمدورفت و واپسی اور ان کے اہل و عیال کے سفر و دیگر معاملات ان کے کاروباری امور ہیں یا دیگر معمولات بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو جس ناساز گار ماحول کا سامنا ہے اس کا حل ایک پورٹل سے ممکن نہیں اس طرح کے مرکز شکایات اور سرکاری محکموں کی کارکردگی کے حوالے سے قائم جائزاتی انتظامات سبھی کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ کس طرح جعلسازی کے ذریعے خود ساختہ طور پر مسئلہ حل کئے بغیر سب اچھا کی رپورٹ تیار کرنے کا بندوبست ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم اس حوالے سے اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کبھی اپنے بیرونی ملک کے دورے کے موقع پر آزدانہ ملاقات کرکے آگاہی حاصل کریں تو ان کو تجویز کئے گئے اقدامات کے ناکافی اور سطحی ہونے کا خود ہی علم ہو گا۔جس کی روشنی میں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سفارشات اور تجاویز کی روشنی میں اگر اقدامات اٹھائے جائیں تبھی قابل ذکر ہوں گے اور سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
یہ بیل منڈھے کیسے چڑھ پائے گی؟
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے اجلاس میں ای وی ایم سے متعلق سیکرٹری الیکشن کمیشن کی رائے قابل توجہ ہے جنہوں نے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بتایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال آئندہ انتخابات میں ہوگا یا نہیں؟ اس پر فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔سیکرٹری الیکشن کمیشن کے مطابق ای وی ایم کے استعمال میں چیلنجز درپیش ہیں، ابھی چودہ مراحل سے گزرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے اجلاس میں بتایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق مزید تین سے چارپائلٹ پراجیکٹ کرنا پڑیں گے، ایک پولنگ اسٹیشن پر کتنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ہوں گی، یہ فگر آ ئوٹ کرنا ابھی باقی ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو تحفظات رہے ہیں ۔جن پر غور اور ان کو دور کئے بغیر حکومت نے قانون سازی تو کرلی مگر جن مشکلات اور اقدامات کا اظہار انتخابات کرانے کے ذمہ دار آئینی ادارے کی جانب سے ہو رہا ہے ان کے ہوتے ہوئے انتخابات کیسے ممکن ہوں گے اس حوالے سے حکومت کو ان سوالات کا جواب دینے تحفظات دور کرنے اور انتظامات کے لئے درکار مہارت و فنی تربیت یافتہ عملہ فراہم کرنے پر خاص طور پر توجہ دینا ہوگی بصورت ناکامی آئندہ عام انتخابات خطرے میں پڑ سکتے ہیں یا پھر پرانے طریقہ کار کے مطابق ہونا قانون کی خلاف ورزی اور قانون سازوں کی سبکی کا باعث ہو گاہم سمجھتے ہیں کہ حکومت قانون دے کر بری الذمہ نہیں ہوسکتی بلکہ قانون کے نفاذ کی ذمہ داری کوبھی پوری طرح نبھانا ہو گی ایسا تب ہو گا جب حکومتی نمائندے اور الیکشن کمیشن کے حکام مل بیٹھیں مسائل و مشکلات و معاملات پر غور کریں تحفظات دور اور خدشات کا ازالہ کیا جائے ۔
قابل غور مشورہ
وفاقی حکومت نے سٹیز امپروومنٹ پراجیکٹ کیلئے خیبر پختونخوا حکومت کو پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کے تلخ تجربات سے سیکھنے کی تلقین خاص طور پر توجہ کا حامل معاملہ ہے اسے اگر آئینہ دکھانے سے تعبیر کیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے میں ڈیڑھ سو ارب روپے سے زائد کے شہری ترقی کے منصوبے کے لئے بین الاقوامی کنسلٹنٹ کے ساتھ ساتھ مقامی کنسلٹنٹ کی موجودگی لازمی رکھنے کی ہدایت کردی گئی ہے واضح رہے کہ خیبر پختونخوا سٹیز امپروومنٹ پراجیکٹ دو مراحل میں شروع کیا جائے گا پہلے مرحلے میں100ارب روپے کے منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں جبکہ اب دوسرے مرحلے میں 50ارب روپے کے منصوبوں کی نشاندہی اور تیاری کے لئے پراجیکٹ ریڈیننس فنانسنگ کی منظوری دی گئی ہے مجموعی طور پر صوبائی حکومت اس منصوبے کے لئے ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ارب ڈالرز سے زائد کا قرض لے گی جو صوبے کی تاریخ میں کسی بھی منصوبے کے لئے سب سے زیادہ ہے۔امر واقع یہ ہے کہ بی آرٹی پراجیکٹ پر ہونے والی تنقید اور اعتراضات کو سیاسی قرار دے کر رد کرنے کی اب گنجائش اس لئے نہیں کہ خود وفاقی حکومت کی جانب سے اس کی مثالیں دے کر محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے صوبے کی تاریخ کا بڑاقرض لینے کا فیصلہ اور اس ضمن میں اختیار کردہ طریقہ کارپر بھی تسلی بخش طریقہ سے کام شاید ہی ہوا ہے صوبے کو مقروض کرنے کے بعد اگر خدانخواستہ رقم کا بھی موزوں اور بہتر استعمال کے لئے درکار مہارت وتجربہ سے بھی کام نہ لیا گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے وفاقی حکومت کی جانب سے جن امور کی نشاندہی اور مشورے دیئے گئے ہیں ان پر ایک مرتبہ پھر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ بھی ایک اور ناکام تجربہ ثابت نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''