”مذاکرات کا سیزن”

دیگر ممالک میں نومبر کا مہینہ پت جڑ ساتھ لایا ہے مگر پاکستان میں پت جڑ کے ساتھ ساتھ مذاکرات کے سیزن کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ چاہے وہ ٹی ایل پی کے پرتششد مظاہروں کو روکنے کے لئے ہو یا پھر ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں سے ہو، حکومتِ پاکستان اسوقت شدید تنقید کے باوجود بھی مذاکرات کا راستہ اختیار کیئے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کا بیک اپ ختم کرنے کے بعد اور ملک کے اندر راہِ نجات ضربِ عضب اور رد الفساد جیسے کامیاب فوجی آپریشنز کرنے کے باوجود بھی حکومتِ پاکستان کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کی ضرورت پیش آئی ؟ نئی افغان حکومت اور پاکستان کونسے کارڈ کھیل رہے ہیں ؟رواں سال 15 اگست کو جب افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ پاکستانی طالبان بھی دم توڑ دیں گے کیونکہ ایک عام تاثر یہ تھا کہ ٹی ٹی پی کو تمام مالی و عسکری امداد سابقہ افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس سے ملتی تھی۔ گو کہ اس میں کسی حد تک صداقت بھی تھی کیونکہ ٹی ٹی پی کئی دھڑوں پر مشتمل ایک گروپ ہے جن کا مقصد محض مرسنری یا کرائے کے فوجیوں کے طور پر لڑنا ہے مگر مکمل طور پر ٹی ٹی پی کسی بھی ایجنسی کے ماتحت نہیں رہی البتہ اس نے اول روز سے افغان طالبان کی بیعت لے رکھی ہے۔ اگرچہ افغان طالبان شروع میں ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے مگر اب لگتا ہے کہ وہ بھی انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ طالبان اس وقت داعش سے برسر پیکار ہیں جس کی وجہ سے انہیں یہ ڈر ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کو قابو میں نا رکھا گیا تو وہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ داعش کے ساتھ مل کر افغانستان میں بھی ان کے لئے دردِ سر بن سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ طالبان کو اب تک پاکستان نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا چنانچہ طالبان پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرکے ان میں صلح کرواکر پاکستان پر اپنا احسان جتانا چاہتے ہیں جس کا بدلہ انہیں شاید لگتا ہے کہ پاکستان انہیں تسلیم کرکے چکائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے نگران وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے پاکستان کا انتخاب کیا۔پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں پاکستان نے طاقت کا مظاہرہ نا کرکے دنیا کے سامنے اپنی ایک کمزور تصویر تو پیش کردی ہے مگر اس کے دور رس نتائج خطے میں سیاست کا رخ پاکستان کے مفاد میں موڑ سکتے ہیں۔ پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے اپنے تین اہم مسائل کے لئے حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف اس نے چین کی اس تشویش کا حل نکالا ہے جو ٹی ٹی پی کے حملوں کے باعث چینی شہریوں کے لئے سی پیک کے کاموں میں رکاوٹوں کے سبب پیدا ہوئی۔ دوسرا یہ کہ چین کے خلاف امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربتوں سے چین کو کم اور پاکستان کو زیادہ نقصان ہورہا تھا کیونکہ امریکہ بھارت کو جو بھی دفاعی سیاسی و معاشی مراعات فراہم کرتا آرہا ہے بھارت اس کا استعمال چین کے بجائے پاکستان پر کرتا ہے جبکہ پاکستان اس کے برعکس پچھلے بیس سالوں سے مغربی سرحدوں پر عسکریت پسندوں سے برسر پیکار رہا۔ چنانچہ ٹی ٹی پی سے اگر مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں تو پاکستان اپنی دفاعی و سیاسی توجہ مغربی سرحدوں سے اٹھاکر مشرقی سرحدوں پر مرکوز کرسکتا ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم فائدہ یہ ہوگا کہ ٹی ٹی پی سے کامیاب مذاکرات کے بعد یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ ان میں وہ کونسے دھڑے ہیں جو غیر ملکی ایجنسیوں کے لئے بطور زر پرست کام کرہے ہیں۔ چنانچہ اس طرح پاکستان کے لئے ایسی قوتوں کے خلاف کاروائی کرنے میں بھی آسانی ہوجائے گی جبکہ افغان طالبان کے پاس بھی تب اس پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔ پاکستان تب چین کے ساتھ مل کر بھارت کے لئے ”ٹو فرنٹ وار سناریو”پیدا کرکے اسے دبائو میں لایا سکتا ہے۔ جس کی پہلی مثال حال ہی بھارتی اخبار میں چھپنے والی ایک خبر ہے جس میں مبینہ طور پاکستانی اور چینی فوج کی جانب سے ایل او سی پر ماڈرن ویلیج بنائے جانے کا ذکر کیا گیا تھا۔کہتے ہیں کہ جتنے کسی کے دوست زیادہ ہوں اتنے ہی اس کے دشمن کم ہوتے ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان دونوں ہی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انکا مشترکہ مسئلہ اسوقت داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیم کو خطے میں مزید پھیلنے سے روکنا ہے اور یہ تب ممکن ہے کہ جب دونوں اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر عقلی بنیاد پر فیصلے کریں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ فوجی کاروائی ہمیشہ ہی کسی بھی مسئلے کا آخری حل ہوتا ہے۔ بے جا طاقت کا استعمال وقتی طور پر تو فائدہ پہنچا دیتی ہے مگر اس کے نتائج بعد میں ویسے ہی نکلتے ہیں جس طرح لال مسجد اور ڈیرہ بگٹی آپریشن کے بعد ریاست کو بھگتنا پڑا۔ چنانچہ ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی سے مذاکرات کی بازگشت اس وقت کئی لوگوں کی انا کو ٹھیس پہنچا تو رہی ہے مگر ریاست نے جس طرح سے دانشمندی اور ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے اس کا پھل مستقبل میں ان لوگوں کو بھی کھانا نصیب ہوگا جو اس سے ناخوش ہیں۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد