کمزور مانیٹرنگ پالیسی اور مہنگائی

بینک دولت پاکستان نے قبل از وقت مانیٹرنگ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں اضافہ کردیا ہے سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں150بیسسز پوائنٹ کا اضافہ ایک ایسے وقت میں کیاگیا ہے جب مہنگائی ڈالر کی بلند ترین شرح اور توانائی کی قیمتوں میں بے پناہ ا ضافے سے معاشی سرگرمیاں پہلے ہی انحطاط کا شکار ہیں اس صورتحال میں قرضوں پر شرح سود میں اضافہ صنعتی اور کاروباری شعبوں کے لئے نئی مشکلات کھڑی کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور بہت سے شعبے جن میں پہلے ہی منافع میں کمی یا لاگت میں اضافے کے مسائل کا سامنا ہے ان کے لئے مہنگے قرضے لے کر کام چلانا عملی طور پر ناممکن ہوجائے گا اور لیکوڈی ٹی کی قلت معاشی سرگرمیوں کی سست روی کا سبب بنے گی۔شرح سود میں اضافے سے رواں مالی سال میں پانچ فیصد جی ڈی پی شرح نمو کے ہدف کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔ سود میں150بیسسز پوائنٹ کے اضافے سے وفاقی حکومت پر قرض ادائیگیوں کے حوالے سے سنگین اثرات مرتب ہوں گے اور حکومت پر اربوں روپے کا بوجھ پڑے گا۔شرح سود میں اضافہ حکومت کی مجبوری اس لئے بن گئی تھی کہ آئی ایم ایف کے مطالبات میں شرح سود میں اضافہ بھی شامل تھا ملک بھرمیں گیس بحران اور سخت زری پالیسی سے پانچ فیصد شرح نمو کا حصول کیسے ممکن ہو گا اس سوال کا جواب حکومتی ماہرین اور سٹیٹ بینک کے گورنر کے پاس بھی شاید نہیں۔اس کے باوجودشرح سود میں اضافہ سوائے آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کے دوسرے فیز پردوبارہ عمل درآمد شروع کرنے کے نتیجے میںسخت زری اور مالی پالیسیاں سامنے آئیں گی جس کے نتیجے میں حکومت اور نجی شعبے دونوں کے لئے قرضوں کے ا خراجات مزید بڑھ جائیں گے حکومت کے اس فیصلے سے پہلے سے بے قابو مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا سی پی آئی بنیاد پر گرانی کو کنٹرول کرنے کے بجائے شرح سود میں اضافے سے مہنگائی کا دبائو مزید بڑھ جائے گا۔ مینوفیکچرز کے قرضے کے اخراجات میں بھی اضافے ہو گا جس کے نتیجے میں وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور ہوں گے ۔امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ملک میں درآمد و برآمدکا توازن بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ پاکستان میں لائے جانے والی اشیاء مہنگی ہو رہی ہیں ۔سب سے مشکل امر یہ ہے کہ حکومت کے پاس اتنی رقم نہیں جتنی رقم خرچ ہو رہی ہے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر کسی حکومت کا مالیاتی خسارہ تین سے چار فیصد ہو تو اس کی گنجائش موجود ہے بلکہ بعض کے خیال میں اس اضافی رقم کو معیشت میںمثبت طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں مالیاتی خسارہ تین سے چار فیصد نہیں بلکہ اس سال پاکستان کا یہ خسارہ 7.5فیصدتک بھی جا سکتا ہے جس کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو مزید رقم کی ضرورت پڑے گی۔حکومت کی دوہری مشکل یہ ہے کہ وہ صرف آئی ایم ایف سے ہی ادھار نہیں لیتی بلکہ پاکستان کی حکومت ملک کے اندر سے بھی ادھار لیتی ہے ایسے ذرائع سے جن کو ہم پرائز بانڈ ‘ نیشنل سیونگ سرٹیفیکیٹ اور ٹریجڈی بلز کے ناموں سے جانتے ہیں جو اکثر لوگوں کے لئے پیسے محفوظ رکھ کر اس پر منافع کمانے کا طریقہ اور ذریعہ ہے۔ حکومت کے لئے یہ ایک ایسا ادھار ہوتا ہے جس کو سود سمیت واپس کرنا ہو تا ہے ۔ شرح سود میں اضافے کے بعد لوگ محولہ شعبوں میں ممکن ہے زیادہ منافع دیکھ کر مزید سرمایہ کاری کریں ایسا کرنے سے حکومت کے پاس وقتی طور پر رقم تو آجائے گی لیکن اس وقتی فائدے کے بعد حکومت کو رقم واپس کرتے ہوئے نقصان اور مشکلات کا بہرحال سامنا ہو گا۔حکومت کی جانب سے شرح سود میں اضافہ کی پالیسی کا سب سے زیاد ہ نقصان چھوٹے اور درمیانی سطح کے کاروباری طبقے کو اٹھانا ہو گا جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی شرح سود کے باعث ادھار لینے کے قابل نہیں اور کرونا سے متاثرہ ان کا کاروبار بھی سخت خسارے اور نقصان میں ہیں۔حکومتی مجبوریوں کو دیکھا جائے تو حکومت پاکستان کے پاس محولہ اقدامات اٹھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ماہر معاشیات اس خدشے کا اظہارکر رہے ہیں کہ پاکستان میں شرح سود کے اضافے سے معاشی سرگرمی میں مزید کمی آئے گی اور اندرونی اور بیرونی قرضوں میں ہوشرباء اضافہ ہوگا۔ شرح سود میں اضافے سے ہر چیز کی قیمت بڑھے گی جس سے ہم بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور یوں جو تھوڑی بہت برآمدات ہے وہ بھی ختم ہوجائینگی۔آئی ایم ایف کی ایماء پر اٹھائے گئے اقدامات کے باعث پاکستان قرضوں کے بوجھ کے نیچے مزید دب جائے گا۔ شرح سو د میں اضافہ پاکستان میں کنزیومر بینکنگ کو متاثر کرے گا اب بینک سے لی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔پاکستان میں محنت کشوں ‘ کم آمدن والوں اور متوسط طبقے کا مستقبل بہت تاریک ہوچکا ہے ۔ عوام کو معاشی تحفظ فراہم کرنے والے ادارے مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اس امر کا ادراک کرکے جلد سے جلد اس کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو خدانخواستہ یہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں