ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

سلطان شاہ

ابھی تو شروعات ہیں اور لگتا ہے ہماری سیاسی قیادت ہمارے ساتھ مخول کا طویل کھیل کھیلنے چل پڑی ہے، یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ مرکزمیں کون حکمران ہے اور صوبوں میں حکومت کا ٹھیکہ کس کے پاس ہے سب ہی یکسو ہو کر اس سمت دوڑ تے نظر آتے ہیں جدھر رخ ہوائوں کا ہے ،اپنے شہد سے میٹھے دوست کی بھی فی الحال کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کہ ہم نے اپنے تمام امراض سے چھٹکارا پانے کے لئے کڑوا گھونٹ نہیں پوری بوتل پینے کی تیاری پکڑ لی ہے ۔


جب یہ ارادہ باندھ ہی چکے تو ضروری ہے کہ ہاتھ باگ پر ہوں اور پاہے رکاب میں،بظاہر شور مچانے والی اپوزیشن جماعتیں ابھی جمہوریت کی محبت میں بہت کچھ ارشاد فرمائیںگی تاہم حکومت اور اس کے ”اتحادی”جو فیصلے کر چکے ہیں یا جنہیں کرنے والے ہیں اس میں روڑے اٹکانے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں او رنہ ہی فی االحا ل یہ اپوزیشن جماعتیں حکومت حاصل کرکے آبیل مجھے مار کی دعوت مبارزت دیں گی،آپ نہ مانیں اور ہمیں بھی ابھی کامل یقین نہیں مگر حالات و آثار سے لگ رہا ہے کہ صرف کلبھوشن یادیو کیس کے حوالے سے ہی بین الاقوامی تقاضے پورے نہیں کئے گئے ،یہ جو ووٹنگ مشین کا چکر چلایا جا رہاہے یہ بھی نئے عمرانی معاہدے ، صدارتی نظام اورسات سمندر پار کے پردیسیوں کو حکومت میں غالب حثییت یا غلبہ دینے کے ایجنڈے کی طرف دوڑ دھوپ ہے۔ اپنے سب پہ بھاری نے کہا ہے کہ بیچ کسی اور نے بویا پھل کوئی اور کھائے گا۔ کیا سمجھے!
مستقبل کی پیشن گوئی کرنے والوں نے کسی زمانے میں بتایا تھا کہ ”بلاول ہمارا ہوگا”تب زیادہ توجہ نہیں دی تھی کسی نے حالانکہ پنڈی سے تعلق کی بنا پر اپنے پیر صاحب آف پگاڑا کی ہر پیشن گوئی کو لے کر لوگ وزیراعظم تک بن جاتے تھے،اب مشینوں کی حکومت آئے گی او ر ضروری نہیں کہ یہ دوسرا دور عمرانی ہو بہرحال ایک اور” عمرانی ” دو ر ضرو رہوگا جہاں مشینوں کے ذریعے دو تہائی اکثریت کی نیلامی میں حصہ لینے والے نئے عمرانی معاہدے پر پیش رفت کے لئے ضمانت ضرور دیں گے جو ضمانت دے گا بسم اللہ بصورت دیگر ضمانت ضبط کروائے گا۔
حکومت کی خواہش میں کوئی ایک تو نہیں سب ہی امیدوار ہیں،بلاول ہو یا مریم نواز، اپنے مولانا کے برخوردار ہوں یا مشرآف ولی باغ کے فرزند ارجمند سب نے بیان حلفی جمع کرانے ہوں گے کہ پرانی سیاست گر ی ہی نہیں یہ جو 73ء کا آئین ہے یہ بھی اس مشینی دور سے ہم آہنگ نہیں، دو تہائی اکثریت کے بدلے نیا عمرانی معاہدہ ۔۔۔وہ بھی جس میں صدارتی نظام کے لئے لمبی چوڑی گنجائش ہو۔۔جو راضی اسی پر فیاضی باقی سب ماضی،اپنے وزیر اطلاعات نے بھی یہی کہا ہے کہ شریف ہو یا زرداری قصہ پارینہ۔


یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہاایوان بالا میں” سرکار ”نے اپنے ہرکاروں کی نصف تعداد پوری کرلی ہے ،تھوڑی بہت کسر تو ”وہ” ویسے بھی پوری کرلیتے ہیں دو تہائی اکثریت ایوان زیریں میں جب” مشینی”انداز سے پوری کر لی جائے گی تو ایوان بالا پورے کا پورا حکام اعلیٰ وبالاکا۔ کسی قانون کو پاس کرانے کی بات آئے تو چوں چراں کرنے والے تین میں ہوں گے نہ تیرہ میں ،وہی سول سوسائٹی کا بینر اٹھائے پارلیمنٹ کے باہر شور شرابا ڈال کر گھر کی راہ لیں گے ،اس کی دیواروں سے سر ٹکرانے والے دیوانوں کی ویسے بھی روز بروز کمی ہوتی جارہی ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں ووٹ کی عزت مانگنے والوں کو بھی جب ذاتی عزت ملنے لگتی ہے تووہ ہمارے ووٹ کی ایسی تیسی کرنے کو تیا رہوجاتے ہیں۔ بات نہ بنے تو پھر جذباتی نعرے لگانے لگتے ہیں۔ دو تہائی اکثریت کے انعام کے بدلے وہ بھی باقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر تیارہوگئے تو حیرت چہ معنی دارد؟سوال یہ ہے کہ ساری تیاری کس کے لئے ہورہی ہے ہر داخلی بحران کے ڈانڈے خارجی سطح پر ہماری مشکلات سے جڑے ہوئے ہیں ،کل پرسوں ہی تو انکل سام نے ہمیں اس فہرست میں ہی رکھنے کے فرمان کی تجدید کی ہے جو بقو ل انکل کے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ممالک پر مشتمل ہے ،ذرا تحقیق کر لیں مذہبی آزادیوںکی خلاف ورزی کی رپورٹ ہمارے خلاف کیوں درج کی گئی ہے ؟ اس شکایت کو رفع کئے بغیر خارجہ محاذپر ہماری کامیابی کاسوال ہی پید انہیں ہوتااورسوال پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دوتہائی اکثریت دلانے والی مشینوں کا سہارا لیا جائے ۔ادھر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے بھی ہم کو راہ راست پر لانے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور دو تہائی اکثریت کے خواہاں حلقوں کے خیال میں اند ر باہر کے تمام مسائل سے نکلنے کا راستہ نیا عمرانی معاہدہ ہی ہوسکتا ہے ،لگتا ہے پہلے عمرانی دور میں اسی کی تخم ریزی کی گئی ہے اور نئے دور میں اس کی جانب اب مشینی پیش رفت دیکھنے کو مل سکتی ہے اور یہ قطعی ضروری نہیں کہ اس نئے دور میں بھی ہم کو عمران سیریزحصہ دوئم پڑھنے پر مجبو رکیا جائے ۔فی الحال تو سیاسی جماعتوں کے لئے کھلی پیش کش ہے”جو بڑھ کر اسے تھام لے مینا اسی کا ہے”۔بیچ جس نے بھی بویا ہے پھل صرف اسی نے کب کھایا ہے؟

بلاگر: سلطان شاہ