نریندر مودی کی پہلی پسپائی

ایک سال سے زیادہ عرصہ سے تک جاری کسان تحریک نے آخر کار بھارت کے متکبر اور متعصب وزیر اعظم نریندر مودی کو ڈھیر ہونے پر مجبور کر دیا۔نریندر مودی نے خطاب میں ان قوانین پر معافی مانگ کر واپس لینے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی یہ توجیح بھی پیش کی قوانین کسانوں کی بہبود کے لئے بنائے گئے تھے مگر ہم کسانوں کا اس بات پر قائل نہ کر سکے کہ یہ ان قوانین میں انہی کا بھلا ہے۔حکومت نے کسانوں کو احتجاج ختم کرکے گھروں کولوٹ جانے کا کہا ہے مگر کسانوں نے متنازعہ قوانین کی پارلیمنٹ سے باضابطہ منسوخی کے بغیر اپنا احتجاج ختم کرنے سے انکار کیا۔ ان قوانین کی اصل زد پنجاب کے سکھ کسانوں پر پڑی رہی تھی اور ان کا مقصد بھی پنجاب کے کسانوں کی معاشی اور سیاسی طاقت کو کمزور کرنا تھا ۔
کسانوں کا کہنا تھا کہ ان قوانین کے ذریعے انہیں صنعت کاروں کے آگے بے دست وپا کرکے پھینک دیا گیا۔ان کاموقف تھا کہ تینوں قوانین زرعی شعبے کو کارپوریٹرائز کریں گے اور یہ قوانین رفتہ رفتہ کم ازکم امدادی قیمت ایم ایس پی کے نظام کو ختم کردیں گے ۔نریندر مودی پنجاب کے کسانوں کے ساتھ سینگ پھنسا کر حقیقت میں اندازے اور تعبیر کی غلطی کا شکار ہوئے ۔انہوںنے اپنی روایتی فاشسٹ ذہنیت کے تحت پہلے کشمیرکی شناخت پر حملہ کیا ۔یہ فیصلہ بھی یوں تو پوری ریاست جموں وکشمیر کو متاثر کر رہا تھا مگر اس کی اصل زد وادی کشمیر کے مسلمانوں پر پڑ رہی تھی ۔ا س فیصلے کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کی طاقت کو توڑنا او رمستقبل کی نئی صورت گری مقصود تھا ۔ اس فیصلے پرپاکستان چین اور ترکی جیسے ملکوں نے احتجاج کیا اور کشمیر میں بھی اس فیصلے کو مسترد کیا گیا مگر بھارت نے اپنا فیصلہ بدلنے سے انکار کیا اور اب بھی اسی روش پر قائم ہے ۔اس سے شہ پا کر مودی نے شہریت کے قوانین نافذ کردئیے ۔ان قوانین کی زد خالصتاََ بھارتی مسلمانوں پر پڑی ۔مسلمانوں نے اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا مگر نریندر مودی نے اس احتجاج کو ناکام بنایا ۔کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے بعد مودی حکومت نے زرعی قوانین کے نام پر سکھ کسانوں کی طاقت توڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور یہ بھڑوں کے چھتے میں پڑ گیا۔کسان مشتعل ہوگئے اور انہوںنے ان قوانین کے خلاف دھرنے کا اور احتجاج کا آغاز کر دیا ۔سکھ کسانوں نے برملا کہا کہ مودی نے سکھوں کوکشمیری اور بھارتی مسلمان سمجھنے کی غلطی کی تھی مگر سکھ کسان لوہے کا چنا ثابت ہوں گے ۔بعد میں یہی ہوا کسان تحریک مودی کے گلے کی ہڈی بن گئی۔کسانوں نے سکھو بارڈر پر مستقل ڈیرے جمالئے اور ایک جدید بستی بسا کر مستقل دھرنا دئیے بیٹھ گئے ۔انہوںنے ٹریکٹر مارچ کرکے دہلی میں بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور اس دوران لال قلعے پر خالصتان کا پرچم لہرانے کا واقعہ بھی ہوا۔ سال بھر کی تحریک کے دوران سات سو کے قریب کسانوں نے اپنی جانیں گنوائیں ۔مودی نے ہر کوشش کر دیکھی مگر وہ کسانوں کا احتجاج ختم نہ کر واسکا۔
کسان مرنے مارنے پر تلے رہے اور انہیں دنیا بھر میں پھیلے سکھوں کی اخلاقی ،سیاسی اور مالی مدد ملنے لگی ۔بیرونی دنیا میں اس احتجاج کی گونج اکثر اوقات سنائی دینے لگی۔ آخر کار نریندرمودی نے اس منظم احتجاج کے آگے ہتھیار پھینک دئیے اور اسے زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کرنا پڑا ۔ اس فیصلے کے پیچھے پنجاب سمیت کئی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات بھی ہیں ۔پنجاب میں جو کسان تحریک کا گڑھ ہے اگلے برس انتخابات ہو رہے ہیں ۔یوپی ‘گوا ‘ اتراکھنڈ میں بھی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔کسانوں کا عدم اطمینان مودی کی پہلے سے کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو مزید گھٹانے کا باعث بن سکتاتھا۔بھارت میں حزب اختلاف کے تمام راہنمائوں نے اسے مودی کے تکبر اور انانیت کی شکست قرار دیا۔راہول گاندھی سے ممتا بینر جی اور اسد الدین اویسی تک ہر شخص کا خیال تھا کہ مودی نے طاقت کے گھمنڈ میں یہ فیصلہ کیا تھا اور اب انہیںعوامی طاقت کے آگے سپر ڈالنا پڑی۔اسد الدین اویسی نے تو اس کے بعد شہریت کا متنازعہ قانون سی اے اے واپس لینے کا مطالبہ کیا تو محبوبہ مفتی نے کشمیر کی شناخت ختم کرنے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ دہرایا۔ اس طرح مودی کا غرور پہلی بار کسانوں نے خاک میں ملادیا۔ جو کام بھارت کے مسلمانوں اور کشمیریوں کے احتجاج اور پاکستان کے دبائو سے نہ ہو سکا وہ کام کسان تحریک نے کر دکھایا ۔
اس کی ایک وجہ سکھ تحریک کی مغربی ملکوں میں قبولیت اور ہمدردی ہے ۔کسان تحریک کی گونج برطانیہ اور کینیڈا کے حکومتی ایوانوں میں بھی سنائی دیتی رہی ۔جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں وہ مسلسل ہوا کے گھوڑے پر سوا ر ہیں ۔بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کی کوشش میں وہ اقلیتوں اور کمزور طبقات پر چڑھائی کرتے چلے آرہے ہیں۔پہلی بار کسان تحریک کی صورت میں ان کا پائوں باردوی سرنگ پر پڑگیا تھا اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو ایسے کاموں کا برآمد ہوتا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ مودی کی پہلی پسپائی آخری ثابت ہوتی ہے یا یہ پسپائیوں کے ایک سلسلے کا آغاز بنتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  ایران کا''آپریشن سچا وعدہ''