برسی پر سیاست کے نئے انداز

بڑی شخصیات کی برسی منانا آج کل بہت اہمیت حاصل کر چکی ہے ‘ حالانکہ اسلام میں اس کا کوئی جواز یا روایت موجود نہیں۔ لیکن جدید ترقی یافتہ دنیا میں زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے نمایاں خدمات اور کارنامے سرانجام دینے والی شخصیات کی ان کے یو م وفات پر ہر سال مختلف تقاریب کا انعقاد کرکے ان کوخراج تحسین پیش کیاجاتا ہے ۔
پاکستان میںملکی سطح پر بانی پاکستان محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی برسیاں اگرچہ ہر سال منائی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر حکومتی سطح پر ‘ یا سکولوں اور تعلیمی اداروں وغیرہ میں اس حوالے سے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ متذکرہ بالا اور ان جیسی دیگر شخصیات اس قابل اور مستحق ہوتی ہیں کہ قوم ان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھے اور آنے والی نسلوں کو ان کے کارہائے نمایاں سے باخبر رکھنے کے لئے ان کے حوالے سے سیمینارز اور کانفرنسیں منعقدکی جائیں ۔ پاکستان میں دیگر کئی ایک شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کی برسیوں پر پروگرام منعقد ہوتے ہیں لیکن وہ زیادہ تر صوبائی ‘ علاقائی یا پھر سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ شومئی قسمت پاکستان میں ایسی شخصیات بہت کم ہیں جو پوری قوم میں یکساں مقبول ہوں۔ مذہب و سیاست نے ہماری قوم کو مسلمان اور پاکستانی ہوتے ہوئے کئی گروپوں ‘ جماعتوں ‘ پارٹیوں اور فرقوں میں تقسیم کر رکھا ہے ۔ اسی لئے بعض شخصیات کی برسیوں پرتقاریر کے دوران مقررین اپنے اپنے مذہبی و سیاسی مقاصد و مفادات کے حصول کے مواقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ اسی تناظر میں پچھلے دنوں پاکستان کی نامور خاتون قانون دان عاصمہ جہانگیر کی برسی پر جو کانفرنس منعقد ہوئی اس میں بہت عجیب و دلچسپ صورتحال سامنے آئی ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عاصمہ جہانگیر کے مذہبی نظریات و عقائد اور بعض دیگر معاملات ہمیشہ متنازع رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ ایک عالمی شہرت کی حامل شخصیت تھی ۔ قانون دان کی حیثیت سے انسانی حقوق کے میدان میں انہوں نے بہرحال بہت کام کیا ‘ اور اسی بناء پر وہ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی باین ا ور پہلی چیئرمین رہی۔ ان کی عورت ہونے کے باوجود بہادری بھی ایک امرواقع کے طور پر تاریخ میں درج ہے ۔ وہ جہد مسلسل پر یقین رکھنے والی خاتون تھی اور اپنی ان شبانہ روز جدوجہد کے سبب وہ پاکستان میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر بن گئی تھی اور اس میں شک نہیں کہ پاکستان جیسے
مردوںسے مغلوب معاشرے میں یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی اپنی ایک پہچان رکھتی تھی لیکن خواتین کے حقوق کی حفاظت اور تحفظ کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار رہتی تھی۔
ناموس رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی آڑ میں بعض اوقات ان کی زبان و قلم سے ایسے جملے سرزد ہوجاتے جن سے بہرحال مذہبی جماعتوں کو سخت اور صریح اختلافات تھے ۔اپنے ان ہی افکار و نظریات کے سبب وہ مغربی ممالک اور بالخصوص امریکہ میں ایک عالمی شخصیت اور انسانی و بشری حقوق کی سرگرم کارکن کے طور پر مصروف تھی۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ان کی بشری حقوق کے حوالے سے بلند وبالا الفاظ میں اعتراف کیا تھا ‘ پچھلے دنوں ان کی برسی نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک خاص ہلچل سی برپا کردی۔ سپریم کورٹ بار کے صدر نے تین روزہ کانفرنس کے پہلے سیشن کی صدارت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کرائی اور کئی ہائی کورٹوں کے چیف جسٹسز اور ججوں ‘ وکلاء اور سیاسی شخصیات کی ایک بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ علی احمد کرد نے چیف کی موجودگی میں جو کچھ کہا ‘ اس کی ذمہ داری اس کی ذات پر ہونے کے علاوہ انتظامیہ پر بھی پڑی ہے ۔ برسی پر لوگ کسی طور ایسی باتیں نہیں کیا کرتے برسی پر مرحوم کے محاسن اور کارنامے یاد کئے جاتے ہیں لیکن یہاں تو وکلاء اور سیاستدان اپنا سیاسی ایجنڈا بڑھاتے ہوئے سیاسی سکورنگ کرنے کی نیت کرکے آئے تھے ۔ سب سے دلچسپ و عجیب و غریب واقعہ یہ ہوا کہ نواز شریف اس کانفرنس کے آخری مقرر تھے ۔ جنہوں نے ایک طرف حکومت وقت پر تیر برسائے ‘ اسٹیبلشمنٹ کی طرف بھی حسب روایت اشارے کئے لیکن ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ کوصلح وصفائی اور ماضی کو بھول کر اور آگے بڑھنے کی دعوت بھی دے گئے ۔ نواز لیگ کے سپوک پرسن نے بھی اس موقع کو عمران خان کو دعوت نہ ملنے کو ان کی وقعت گرانے کے لئے استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔بحیثیت مجموعی یہ کہنے میںکوئی باک نہیں کہ عاصمہ جہانگیر جیسے زندگی میں ایک باکمال متنازع شخصیت تھی ‘ ان کی برسی پر بھی لوگوں نے اپنے اپنے متنازع امور عوام کے سامنے پیش کئے ۔ لیکن اس اعتراف سے مضر نہیں کہ عاصمہ جہانگیر بہرحال اپنی نوعیت کی ایک سکول آف تھاٹ تھی۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''