مغربی جمہوریت تضادات کی دلدل میں

امریکہ میں اگلے ماہ جمہوریت سے متعلق ایک عالمی ورچوئل کانفرنس منعقد ہو رہی ہے ۔جس میں پاکستان سمیت ایک سو دس ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں ۔ امریکہ کی نظر میں جو ممالک جمہوری نہیں انہیں کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا ۔چین اور ترکی اس میں شامل ہیں جبکہ عرب ملکوں کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔جمہوریت کو درپیش خطرات اور چینلجز کے حوالے سے منعقدہ اس کانفرنس سے کچھ ہی دن پہلے سویڈن کے ادارے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیمو کریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس (انٹرنیشنل آئیڈیا) نے ایک رپورٹ جا ری کی ہے۔جس میں جمہوریت کی عالمگیر صورت حال کو زیادہ خوش آئند قرار نہیں دیا گیا ۔ رپورٹ کے مطابق ٹرمپ حکومت کے دور میں ہونے والی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں کئی دیگر جمہوریتیں بھی واضح طور پر کمزور ہوئی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران جمہوریت کی پسپائی میں دوگنا تیزی آئی ہے۔اور اب یہ صورت حال چوتھائی دنیا میں پائی جاتی ہے۔ان ممالک میں امریکہ یورپی یونین ممالک جیسی مستحکم جمہوریتیں اور ہنگری پولینڈ اور سلووانیا بھی شامل ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے دوتہائی ممالک میں جمہوریت اُلٹے پائوں پیچھے ہٹ رہی ہے۔یہ پہلی دفعہ ہے کہ ہم نے امریکہ میں جمہوریت کو پیچھے ہٹتے دیکھا ہے۔امریکہ میں جمہوریت کے پیچھے ہٹنے کا عمل2019میں شروع ہوا۔چین سعودی عرب ایتھوپیااور ایران سمیت سنتالیس ممالک میں مطلق العنان حکومت ہے جبکہ پاکستان کو کمزور جمہوریت کہا گیا ہے۔جمہوریت کی صورت حال میعار اور کیفیت کو مانیٹر کرنے والے ادارے کی یہ رپورٹ خاصی اہم ہے اور جو یہ بتا رہی ہے کہ دنیا میں جمہوریت کاسورج اپنی بھرپو ر چمک دمک دکھا نے کے بعد زوال آشنا ہے ۔ اب امریکہ کو بھی شاید اس بات کا احساس ہوگیا کہ جمہوری نظام روبہ زوال ہے اور اسی احساس نے صدر جوبائیڈن کو کانفرنس منعقد کرنے پر مجبور کیا ہے۔ سر دجنگ کے زمانے میںدنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی تو جمہوریت کی چمک دمک اور ستارہ پورے عروج پر تھا ۔جمہوری ملکوں میں ترقی کی رفتار بھی تیز تھی اور دنیا بھر میں شخصی یا کمونسٹ حکومتوں کی گھٹن اور حبس کے ستائے ہوئے عوام مغرب کی جمہوری جنت کا رخ کررہے تھے ۔پھر سر د جنگ کی دیوار دھڑام سے نیچے آگر ی اور دنیا آن واحد یک قطبی ہوئی ۔امریکہ دنیا کا واحد تھانیدار بن گیا ۔اسے بدلی ہوئی دنیا کے لئے ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت پیش آئی اور اس ورلڈ آرڈر کو قبول عام اوردوام بخشنے کا مرحلہ آیا تو امریکہ کو طاقت کا استعمال کرنے کی ضرورت پڑ گئی ۔جنگوں کا سہار ا لینا پڑا ۔سوویت کمیونسٹ نظام کو گرانے والے امریکہ کے ورلڈ آرڈر میں خود سوویت یونین کے جراثیم پیدا ہونے لگے ۔طاقت سے اپنی بات منوانے اور ٹھونسنے کا عمل شروع ہوا یہاں تک کہ نائن الیون کا حادثہ رونما ہوگیا ۔جس کے بعد مغربی جمہوریت اپنی میک اپ اور ظاہری چمک دمک سے محروم ہونے لگی ۔نئی جنگ کی خاطر قوانین ترتیب دئیے گئے جن میں زیادہ سختی کرختگی اور شدت عود کر آئی اور بین الاقوامی سطح پر اور دوسرے ملکوں پر اپنے فیصلے ٹھونسنے کے عمل نے بڑی جمہوریت کو شخصی اور سخت گیری کے رنگ دینا شروع کئے ۔یوں کمزور اور بدحال ملکوں کے حلق میں زبردستی جمہوریت کا جام انڈیلنے کی خواہش اور کوشش میں امریکہ خود مغرب میں جمہوریت کو کمزور کربیٹھا۔امریکہ نے جمہوریت کے پیکٹ کے ساتھ ایک ساشے بھی مفت میں بانٹنے کی پالیسی اپنا ئی وہ تھی ایک مخصوص ثقافت اور تہذیب ۔اس اصل پیکٹ کے ساتھ ساشے بانٹنے کا نتیجہ پہلے الجزائر اور بعد ازاں مصر میں عوامی فیصلوں کو دبانے کی سرپرستی کی صورت میں نکلا اور یوں مسلمانوں کا ایک وسیع طبقہ جمہوریت سے مایوس ہوگیا ۔یہ تو ایسا ہی کہ چین اپنے نظام کے ساتھ اپنی غذا ئوں اور ثقافت کو قبول کرنے پر بھی اصرار کرے تو لامحالہ اس کا ردعمل ہوگا ۔لوگوں کو ان کی انفرادیت میں قبول نہ کرنے کی یہ سوچ جمہوری کی بجائے آمرانہ رویوں کو فروغ دیتی ہے ۔یوں مغربی جمہوریت اپنے تضادات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے نام پر وہی رویہ اپنایا گیا جو ہٹلر نے جرمنی کالنگ اورلارڈ ہاہا جیسے انداز سے اپنایا تھا یعنی پروپیگنڈے کے ذریعے ذہنوں کو تسخیر کرنے کا انداز ۔اس نے مغرب کے کھلے جمہوری ذہن میں آمریت کے رنگ ڈھنگ پیدا کئے ۔جمہوریت کچھ رویوں اور احساسات کا نام ہے اور یہ ختم ہوجائیں تو یہ نظام اپنی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔جمہوریت کو لاحق یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل گیا یہاں تک بھارت جو خود کو دنیا کی سب بڑی جمہوریت کہلاتا تھا آج جمہوریت کا دامن اور گریباں چاک کر بیٹھا ہے جس کا تذکرہ سویڈن کے ادارے کی رپورٹ میں بھی یوں ہے کہ بھارتی جمہوریت کے کئی اقدامات کا جمہوریت سے دوردور کا تعلق نہیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟