کچھ واضح ‘کچھ مبہم

ایک دو جامعات جن میں سے ایک صوبائی دارالحکومت پشاور میں واقع ہے ان کے وائس چانسلرزکی ابتداء سے لیکر موجودہ پوزیشن تک کے حوالے سے تفصیلی برقی پیغامات ملے ہیں ان کے حوالے سے میں اتنا ہی عرض کروں گی کہ اس طرح کی شکایات جواجتماعی نہ ہوںاور کسی کی ذات وملازمت اور عہدہ کو براہ راست مخاطب یانشانہ بنایا گیا ہواگرچہ یہ بھی قابل غور امور ہیں جن سے ملک میں میرٹ اور خاص طور پر تعلیم جیسے اہم شعبے میں درپیش صورتحال اورفیصلوں کی نشاندہی ہوتی ہے جواپنی جگہ قابل صد توجہ امور ہیں لیکن کالم کی پالیسی کے تحت یہ موضوعات اجتماعی نہیں اس لئے اس حوالے سے گورنر خیبر پختونخوا اور ایچ ای سی یاپھر زیادہ موزوں فورم عدالت ہے بہتر ہوگا کہ فیصلہ کن فورم سے رجوع کیا جائے۔جہاں تک اس طرح کے فیصلوں کے اثرات اور جامعات پر اس کے اثرات کا سوال ہے ان مخصوص وائس چانسلرز کا تذکرہ کئے بغیر یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ سفارش اور اثرورسوخ کے بل بوتے پرتقرریاں ملکی نظام کو مفلوج اور حقداروں کا راستہ روکنے کی وہ روش ہے جس کے اجتماعی اثرات سے پورے جامعات کا ماحول مکدر اور فیصلے و اقدامات غیر منصفانہ اور میرٹ کی سنگین خلاف وزیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے محولہ برقی پیغام مشت نمونہ از خروارے وہ حقیقت اور کسوٹی ہے کہ اس کے آئینے میں ساری صورتحال اور سارا نظام طشت ازبام ہے وطن عزیز میں انتظامی پوسٹوں پر تقرری کے لئے بااثر ‘ کرپٹ ‘ مضبوط گروہ و سیاسی وابستگی یہاں تک کہ اخلاقی طور پربھی کمزوری وہ معیارات ہیں جس کے حاملین کو باآسانی بڑی سیٹ مل جاتی ہے اور جو لوگ دیانتدارانہ کردار کے حامل راست گو اور راست باز حق و ناحق میں تمیز کرنے والے خوف خدا رکھنے والے ہوتے ہیں وہ اس نظام کے ساتھ چل نہیں سکتے میں تو یہی کہوں گی وہ اس نظام میں اولاً داخل ہی نہیں ہوسکتے اس طرح کے لوگ اتفاقاً ہی نظام کا حصہ بنتے ہیں وہ کسی امتحان اور کسی طریقہ کار کے تحت جب حکومتی مشینری کا حصہ بنتے ہیں تو ان کی تربیت کا اس طرح سے انتظام ہوتا ہے کہ وہ نظام کی اصلاح کے نہیں بلکہ اس نظام کے ساتھ چلنے اور اس کا حصہ بن کر اسی نظام کوچلانے کے لئے تیار ہوں پھر بھی ان کا ضمیر اور ان کی سرشت تبدیل نہ ہو تو پوری سروس کھڈے لائن اورغیر ضروری و غیر اہم عہدوں پروقت گزار کر سروس پوری کرکے ایمانداری کا مزہ چکھ کر بہتری اور کچھ کر گزرنے کی دیوانگی کے حسرت بھرے جذبات کے ساتھ گھر سدھار جاتے ہیں جن کا حاصل سوائے ضمیر پر بوجھ نہ ہونا ہی ہوتا ہے باقی قسم کے لوگ سب کچھ پا کر بھی ضمیر پر غلط فیصلوں اور ناانصافیوںکا ایسا بوجھ لئے رخصت ہوتے ہیں کہ ملازمت کے آخری دن تک وہ احساس نہیں کر پاتے مگر جب دو چاردن بعد ان کوپرانی حیثیت
شان و شوکت اختیارات اور جاہ و جلال سب کچھ پاس نہیں ہوتا تو اس افسوس اور وقت گزرنے اور اختیارات چھن جانے کے بعد کے جاگے ضمیر کا کیا فائدہ اب ان کے پاس توبہ کی ہی توفیق ہوتی ہے جو مالک کائنات عطاء کرے تو پھر خود آسمان والے کی مرضی مگر وہ بھی اپنے بندوں کے ساتھ ہونے والے سلوک و مظالم کی معافی نہیں دیتا بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو تادم مرگ خطاء کے احساس سے بھی عاری ہوں اور وقت حساب سر پر آجائے اس آئینے میں جن جن کے پاس ابھی وقت باقی ہے اپنا چہرہ دیکھنے اور اپنی اصلاح پر کسی نے توجہ دی تو غنیمت بصورت دیگر حساب کا دن تو مقرر ہے زندگی بھی سزا دیتی ہے کبھی کبھی اور اکثر بھی اس کے مختلف رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں کہیں کسی ایک طرح اور کہیں دوسری طرح اس برقی پیغام میں ایک اور توجہ جامعات میں سلیکشن بورڈ پرپابندی کے خاتمے اور بھرتیوں کی طرف بھی دلائی گئی تھی خاص طور پر صوابی ویمن یونیورسٹی کی بحال ہونے والی وائس چانسلر کی مستقل بنیادوں پرتقرریاں کرنے کے عزم کا حوالہ دیا گیا تھا اسی جامعہ میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ایک مرتبہ اسی نمبر پر عزیز بھائی کو اسی یونیورسٹی کے ایک انتظامی فرد کی جانب سے فون کرکے بتایا گیا کہ جامعہ میں اسامیوں کے جو اشتہارات دیئے جارہے ہیں اس کا مقصد تقرریاں نہیں بلکہ جامعہ کی مالی ضروریات کے لئے امیدواروں سے درخواستوں کے ساتھ ملنے والی رقم ہوتی ہے جو لاکھوں میں ہوتی ہے فون کرنے والے نے رازداری کی درخواست بھی کی تھی جس کا اس وقت خیال رکھا گیا مگراب اس بات کے کئی سال گزر چکے اور اس فارمولے کی دیگر جامعات کے حوالے سے بھی باز گشت رہی ہے اس لئے ہی اس کا تذکرہ آیا بہرحال یہ تو ایک برسبیل تذکرہ واقعہ کی باز گشت تھی ممکن ہے اب حالات اس طرح کے نہ رہے ہوں خوش آئند بات یہ ہے کہ اسی جامعہ کی پرعزم وائس چانسلر اب مستقل تقرریاں چاہتی ہیں جس کی دیگر جامعات میں بھی تقلید ہونی چاہئے اختیارات اور تقرریوں کی جوتصویر اوپردکھائی گئی ہے کم از کم اگررئیس الجامعات کی تقرریوں میں انصاف اور میرٹ سے کام لیا جائے سیاست بازی اور ذاتی تعلقات کو اولیت دینے کی بجائے خالصتاً میرٹ ‘قابلیت اور موزونیت کو معیار بنا کر اس پر سختی سے عمل پیرا ہوا جائے تو جامعات اور اعلیٰ تعلیم کی اصلاح کے لئے اچھی ابتداء ہوسکتی ہے مجھے افسوس ہے کہ میں مصلحت اور پالیسی کے باعث کھل کر سامنے ایک مثال موجود ہونے کے باوجود اسے پیش نہ کر سکی اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ جب تک اس طرح کی کسی شکایت کو اگرمعروضیت کی کسوٹی پر قابل اعتماد ذریعے سے نہ پرکھا جائے تو اس حوالے سے یوں کھل کر ا ظہار خیال بھی مناسب نہیں ہوتا مبادا کہ مبالغہ آرائی سے کام لیاگیا ہو الزامات غلط اور حقائق کے برعکس ہوں اور خواہ مخواہ میں کسی کی حق تلفی ہو احتیاط کے باوجود بھی کالم میں کافی کچھ زیر بحث آیا جو عمل اور سمجھنے کے خواہشمندوں کے لئے کافی ہونا چاہئے۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل