ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماںکیوں ہو

آپ کی اپنی صوابدید ہے کہ کالم میں جہاں جہاں چاہیں فارسی کے مشہور مقولے ”چہ دلاور است دز دے کہ بکف چراغ داری” کا تڑکہ لگا کر اپنا لطف دوبالا کر سکتے ہیں تاہم یہ سب آپ کی اپنی رسک پر ہوگا’ اسی لئے جہاں جہاں ان الفاظ کا استعمال کرکے آپ حظ ا ٹھا سکتے ہیں ہم ان کی نشاندہی نہیں کر سکتے ‘ بات آگے بڑھاتے ہوئے ایک مشہور سینیئر اینکر حامد میر کے ایک حالیہ تحریر سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے ۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے لیک ہونے والی ایک آڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی وزراء اس آڈیو لیک کونون لیگ کی سازش قراردے کر اعلیٰ عدلیہ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں نون لیگ کوبے نقاب کیا جاسکے ‘ وہ آگے کہتے ہیں کہ احمد نورانی (آڈیو لیک سامنے لانے والے ) کو پھینٹی نون لیگ کے دور میں نامعلوم افراد نے لگائی تھی ‘ یہ ان بے چہرہ افراد کو پیغام ہے کہ کسی صحافی کو جتنا بھی ڈرا لیں ‘ مار پیٹ کر لیں ‘ گولیاں مروادیں ‘ اخبار سے نکلوا دیں ‘ پابندیاں لگا دیں لیکن آج کے دور میں یہ ہتھکنڈے نامعلوم افراد کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ۔ ان الفاظ کو نقل کفر ‘ کفرنہ باشد کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے اب مریم نواز کی جانب سے بھی آڈیو لیک کی تحقیقات کا ایک پریس کانفرنس میں جوانہوں نے گزشتہ بدھ کو اسلام آباد میں کی ذکر کرتے ہیں ‘ جس میں انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار کوحساب اور جواب دینا پڑے گا ۔ انہوں نے کہا کہ میاں ثاقب نثار پرالزامات غلط ہیں تو انہیں خود آگے آکر خود کو احتساب کے لئے پیش کرنا چاہئے ‘ اگر وہ صرف زبانی کلامی تردیدوں پر گزارہ کریں گے توپھر کئی سازشی مفروضے جنم لیں گے ‘ مریم نواز نے اگرچہ بات درست کی ہے تاہم کچھ تجزیہ کار یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ نون لیگ اس معاملے کو لیکر خود عدالتوں سے انصاف طلب نہیں کرتیں کیونکہ اس سے ان کو مبینہ طور پر ریلیف ملنے کا قوی امکان موجود ہے ‘ ادھر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک بیان میں الزام لگایا ہے کہ جعلی ویڈیوز ‘ آڈیوز لانا نون لیگ کا وتیرہ ہے ‘ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ٹی وی چینل پر آڈیو لیک کے حوالے سے اسے جعلی ثابت کرنے کے حوالے سے سارا سارا دن پروگرام کیا گیا اور اب اس ٹی وی چینل کے مالک نے پنجاب کے وزیرکی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا ہے تاکہ چینل کی ”غیرجانبداری” پر حرف نہ آئے ‘ مگر متعلقہ پروگرام کے مندرجات پر بھی سوشل میڈیا پر وی لاگرز اپنے تبصروں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اس آڈیو کے حوالے سے پروگرام نے میاںثاقب نثار کے اس دعوے کی ہی تردید کر دی ہے کہ یہ میری آواز ہی نہیں ‘ ایسی صورت میں مرزا غالب بھی یاد آگئے ہیں جنہوں نے کہا تھا
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کوکیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ادھر سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر صلاح الدین اور ممبر جوڈیشل کمیشن سید حیدر امام رضوی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کرادی ہے جس میں اس آڈیو لیک کے عدالتی نظام پر پڑنے والے ممکنہ منفی اثرات پر تشویش کا ا ظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کی غیر جانبدارانہ تحققات کے لئے ایک آزاد اور خود مختارکمیشن بنایا جائے جس میں نہ ”صرف اچھی شہرت والے”ریٹائرڈ جج ‘ وکیل ‘ صحافی اور سول سوسائٹی کے افراد شامل ہوں’ جسے آڈیو لیک کے علاوہ عدلیہ پر دیگر الزامات کی چھان بین کا کہا جائے ۔ اس درخواست میں سابقہ ججز کے حوالے سے صرف اچھی شہرت والے الفاظ انتہائی غور طلب ہیں ۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آڈیو لیک نے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچایا ہے ۔ عدلیہ کی آزادی پر اہم نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں’ آئینی عدالت کے ناتے عوام کا آزاد ‘ غیر جانبدار عدلیہ پر اعتماد بحال کرنا ضروری ہے ۔ جون ایلیاء نے کہا تھا
آئو آپس میں کچھ گلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گلے بھی کہاں
وہ دور تو اب جانے کہاں کھو گیا ہے جب عدالتوں میں سووموٹو نوٹسز لئے جاتے تھے ‘ اور کسی بھی عوامی مسئلے کا حل ڈھونڈا جاتا تھا ‘ اگرچہ بعض اوقات ان عدالتی اختیارات پر بھی سوالات اٹھائے گئے ‘ تاہم معاملہ اب اہم مسائل پر بھی آنکھیں بند کرنے کی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے اس آڈیو لیک نے یقیناً عدلیہ کے وقار پر سوال اٹھا لئے ہیں اور اصولاً اس پر از خود نوٹس لینا بنتا ہے ‘ تاکہ عدلیہ کو تنقید کی سان پر رکھنا آسان نہ ہوسکے ‘ اس کالم کے شائع ہونے تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے کیا آبزرویشن سامنے آتی ہیں یہ بھی معلوم ہوسکے گا ‘ تاہم ان سوالات نے1996ء میں ویت نام پر امریکی افواج کے حملے اور وہاں ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے ایک عالمی تحقیقات کمیشن کی یاد ضرور دلا دی ہے جس کے سربراہ برطانوی فلاسفر برٹرینڈرسل اور فرانس کے دانشور اور فلاسفر ژاں پال سارتر تھے ‘ جنہوں نے امریکی اور برطانوی دبائو کوجوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے دنیا بھر سے قانون دانوں ‘ دانشوروں اور انسانی آزادی کے علمبرداروں کی ایک 25 رکنی عالمی سطح کی کمیٹی قائم کرکے امریکہ پرویت نام میں مظالم ڈھانے اور انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب قرار دینے کا مجرم قرار دیا اور اس پرمقدمہ قائم کردیا تھا ‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کی اصلاح کے لئے پاکستانی معاشرے میں ایسا کوئی عالی دماغ نہیں ہے جواپنے ساتھ حقیقی معنوں میں غیرجانبدار اور آزادی پسند وکلاء ‘ سابق ججوں ‘ دانشوروں اور زندگی کے دیگر شعبوں کے نابغہ افرادکو ولیکرعدلیہ کے وقار کوبچانے کے لئے آگے آئے اور آڈیو ‘ ویڈیو لیکس کی اصل حقیقت سامنے لائے ۔
کیسا حساب ‘ کیا حساب ‘ حالت حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے ‘ زہرزماں زماں میں ہے

مزید پڑھیں:  صحت کارڈ سے علاج میں وسعت